342

ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ:’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کواس نے برکت دی ہے،تا کہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔(نبی اسرائیل 1) ::: تحریر محمد اشفاق نیاز

معراج النبیﷺ

سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ:’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کواس نے برکت دی ہے،تا کہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔(نبی اسرائیل 1)

یہ وہی واقعہ ہے جو اصطلاحاََ ’’معراج ‘‘ اور اسراء‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعے کی تفصیلات بکثرت صحابہؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد 25تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالکؓ ، حضرت مالک بن صَعصَعہؓ ، حضرت ابو ذرغفاریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہیں ۔ان کے علاوہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت ابوسعید بن عباسؓ، حضرت ابو سعید خدریؓ ،حضرت حذیفہ بن یمانؓ ، حضرت عائشہؓ اور متعدد دوسرے صحابہؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں ۔
قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے۔ اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریلؑ آپ کو اٹھا کر مسجد اقصیٰ تک بُراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لے چلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدرانبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخرکار آپ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعے کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔
حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اگر کوئی شخص اُن تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانے جو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کررہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔
اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں؟ اور آیا حضورﷺ بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سُبحٰنَ الّذِی اَسریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتارہا ہے کہ یہ کوئی بڑا خارقِ عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالی کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزرویوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ’’ایک رات اپنے بندے کو لے گیا‘‘جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالی نے نبیﷺ کو کرایا۔
اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکے سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سے ممکن تھا، تو آخر اُن دوسری تفصیلات ہی کو ناممکن کہہ کر کیوں رد کردیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے؟ ممکن اور ناممکن کی بحث تو صرف اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے با اختیار خود کوئی کام کرنے کا معاملہ زیر بحث ہو۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا، تو پھرامکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو دوسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے معتدد اعتراضات کیے جاتے ہیں، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعترضات ایسے ہیں جوکچھ وزن رکھتے ہیں۔
ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالی کا کسی خاص مقام پرمقیم ہونا لازم آتا ہے، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کرا کے ایک مقامِ خاص تک لے جایا جاتا؟
دوسری یہ کہ نبی ﷺ کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرادیا گیا جبکہ ابھی بندوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے؟
لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلاشبہ اطلاقی شان رکھتا ہے۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود وسائط اختیار کرتا ہے۔ مثلاََ جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سکے، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے، کیوں کہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذاتِ خود کسی مقام پرمتمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہے جہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اُس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔
رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبیﷺ کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کرکے دکھایا گیا تھا۔ مثلاََ ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جاسکا۔ یا زنا کاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح بُرے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔
اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے ان کے منصب کی مناسبت سے ملکوتِ سٰموات وارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے، تا کہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے باہر ممّیز ہوجائے۔ فلسفی جوکچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جوکچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں