980

کراچی عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ کا تعارف

۔ بیورو چیف اصف علی خان
آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں کے شرعی معاملات کو دیکھ رہے ہیں ۔

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش 27 اکتوبر 1943ء کو ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دار العلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

آپ نے اپنے وقت کے تقریباً تمام جید علما سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علما میں خود ان کے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلوی اور محمد زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔

مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے انکی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہو گئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبد الحئی کے انتقال کے بعد آپ ان کے خلیفہ مجاز ہیں۔

مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دار العلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دار العلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علما نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔

جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور انکی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لیے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لیے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔

مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہو گئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ نے بحثیت جج کئی اہم فیصلے کیے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔
اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کر رہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اورگنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔

مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے ذریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر آمریکہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور ٹی وی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتوا دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔

آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں
آسان نیکیاں
اندلس میں چند روز
اسلام اور سیاست حاضرہ
اسلام اور جدت پسندی
اکابر دیوبند کیا تھے
تقلید کی شرعی حیثیت
پرنور دین
تراشے
بائبل کیا ہے
جہاں دیدہ
دنیا میرے آگے
حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
حجت حدیث
حضور نے فرمایا
فرد کی اصلاح
علوم القرآن
ہمارا معاشی نظام
نمازیں سنت کے مطابق پڑہیں
عدالتی فیصلے
مسیحیت کیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں