361

حکومتی جماعت “پی ٹی آئی”کا تاریخی سائنسی تجزیہ ، عقل سلیمی کی زیرک سیاسی آراء کی روشنی میں.رپوٹ ڈاکٹر شازیہ ایڈوکیٹ

پی ٹی آئی کا اندرونی ڈھانچہ بڑی حد تک بلوچستان کےسرداری نظام کی طرز پر استوار ہے۔ اس کے اندرونی نظام کو سمجھنے کے لئے اگرہم بلوچستان کے سرداری نظام کی اصطلاحات مستعار لیں تو تفہیم میں آسانی ہوگی۔ انگریز نے بلوچستان کے تاریخی نظام کو اپنے تابع رکھنے کے لئے چار کیٹگریز میں تقسیم کیا۔ سب سے اوپر نواب ہوتا ہے۔ اس کے نیچے کئی سردار ہوتے ہیں۔ پھر ہر سردار کے کے نیچے کئی میر اور پھر ہر میر کے نیچے کئی ٹکری ہوتے ہیں۔ جبکہ اوپر سے کئی نوابوں کو خان آف قلات کے تابع رکھا گیا تھا۔ یوں نمائش اور چہل پہل زیادہ تر نوابوں، سرداروں، میروں اور ٹکریوں کی نظرآتی تھی لیکن سب سے موثر اتھارٹی خان آف قلات کی ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے نواب عمران احمد خان نیازی ہیں۔ پھر ان کے ماتحت بنیادی طور پر دو سردار ہیں۔ ایک سردارجہانگیر ترین اور دوسرے سردارشاہ محمود قریشی۔ اسد عمر، شیریں مزاری، علیم خان، چوہدری سرور اور اعظم سواتی وغیرہ “میر” ہیں۔ اسی طرح پرویز خٹک، اسد قیصر، سرور خان، علی محمد خان، خسرو بختیار، مراد سعید، عمران اسماعیل، اعجاز چوہدری اور زرتاج گل وغیرہ ٹکریوں کی فہرست میں آتے ہیں۔ نعیم الحق، زلفی بخاری، افتخار درانی، فیصل جاوید، فیصل واوڈا، علی زیدی، عون چوہدری، اعظم خان، ارباب شہزاد، یوسف بیگ مرزااور اسی نوع کے کئی دیگر لوگ نواب صاحب کے ذاتی خدمتگار یا پھر وہ درباری ہیں جو شام کے وقت نواب صاحب کی محفل کا حصہ ہوتے ہیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ دو سرداروں میں سے ایک یعنی سردارشاہ محمود قریشی اپنی ہوشیاری سے سیاست کا کھیل جیت چکے اور نااہلی کی وجہ سے سردار جہانگیر ترین بظاہر ہار گئے لیکن دوسری طرف نواب صاحب کا دل جہانگیر ترین نے جیت لیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی گدی نشین ہونے کی وجہ سے نوٹ نچھاور نہیں کرسکتے بلکہ وہ ہمہ وقت اس انتظار میں رہتے ہیں کہ خود بیٹھے رہیں اور لوگ آکر ان پر نوٹ نچھاور کریں جبکہ جہانگیر ترین نوٹ نچھاور کرنے کا فن بدرجہ اتم جانتے ہیں۔ وہ جس تیزی کے ساتھ کماتے، اس تیزی کے ساتھ لٹاتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ نواب صاحب ایسے ہی لوگوں کے گرویدہ رہتے ہیں۔ جہانگیر ترین محنت بھی زیادہ کرتے ہیں اس لئے میروں کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے۔ صرف تین میر یعنی اسد عمر، شیریں مزاری اور چوہدری سرور اس وقت شاہ محمود قریشی کے ساتھ نظرآتے ہیں۔ لیکن جہانگیر ترین کا پلڑا یوں بھی بھاری ہے کہ نوے فی صد سے زائد ٹکری ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پرویز خٹک، فواد چوہدری، مراد سعید اور کئی دیگر پرانے ٹکریوں نے تو جہانگیر ترین کے لئے اپنی حمایت کا برملا اظہار بھی کردیا لیکن میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ٹکریوں کی واضح اکثریت شاہ محمود قریشی کو پسند نہیں کرتی۔ اسی طرح گزشتہ انتخابات سے قبل سینکڑوں کی تعداد میں نئے میروں کو نواب صاحب کے حلقہ ارادت میں لایا گیا اور یہ کم و بیش سب جہانگیر ترین کے جہاز میں بیٹھ کر بنی گالہ آئے۔ یوں ان سب نئے ٹکریوں کی ہمدردیاں بھی سردار جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ میروں کی اکثریت جہانگیر ترین کے ساتھ ہے لیکن ایک میر یعنی اسد عمر کا کردار بہت اہم، پر اسرار اور دلچسپ ہے۔ یہ میر اصلاً دونوں سرداروں کے مخالف ہیں اور ان کی جگہ خود سردار اور نواب کا جانشین بننا چاہتے ہیں لیکن چونکہ وہ بہت ہوشیاری سے کام کرتے ہیں اس لئے سردست دو اور میروں یعنی شیریں مزاری اور شفقت محمود کو ساتھ ملا کر سردار جہانگیر ترین کو آئوٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میر اسد عمر کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی مارکیٹنگ خوب کرسکتے ہیں اور تادم تحریر اپنی چرب زبانی سے نواب صاحب کو متاثر کئے رکھا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ میروں کی ایک قسم وہ ہے کہ جن کی براہ راست نواب صاحب تک رسائی نہیں اور انہیں وہاں تک جانے کے لئے سردار کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن اسد عمر، شیریں مزاری اور شفقت محمود میروں کے اس کیٹیگری میں آتے ہیں جو براہ راست نواب صاحب تک رسائی رکھتے ہیں۔ یوں اس حوالے سے سردار شاہ محمود قریشی کا پلڑا بھاری ہوسکتا ہے کیونکہ ان تینوں نے سردار شاہ محمود قریشی کی قیادت میں درپردہ کوششوں کے ذریعے جہانگیر ترین کو نااہل کروانے میں بھی بنیادی کردار اد اکیا تھا۔ اسی طرح ہر ٹکری کو نواب تک پہنچنے کے لئے کسی میر اور پھر سردار کا راستہ اپنانا پڑتا ہے لیکن بعض ٹکری ایسے ہیں جو براہ راست نواب صاحب تک رسائی رکھتے ہیں اور ان کی گڈبکس میں ہیں۔ جیسے مراد سعید، فواد چوہدری، زرتاج گل اور اسد قیصر وغیرہ۔ اب ان ٹکریوں کی واضح اکثریت جہانگیر ترین کی ہمنوا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر کا اس پوزیشن تک پہنچنا اور اس پر فائز رہنا جہانگیر ترین کی عنایتوں کامرہون منت ہے۔ یوں ٹکریوں کے حوالے سے بھی جہانگیر ترین کا پلڑا بھاری ہے۔ بلوچستان کے سرداری نظام میں اگرچہ بیگمات کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا لیکن یہاں ریاست عمرانیہ میں نواب صاحب کی اہلیہ کا رول بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ پنجاب کے وزارت اعلیٰ جیسے کئی اہم فیصلے سرداروں، میروں اور ٹکریوں کے اختلاف کے باوجود ان کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ چنانچہ دو سرداروں کی اس لڑائی میں بھی ان کا رول اہم ہوگا اور سردست ان کی ہمدردیاں بھی سردار جہانگیر ترین کے ساتھ نظرآتی ہیں۔ علاوہ ازیں جس طرح بلوچستان کے نوابوں پر غیرملکی طاقتیں، مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بلوچستان کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے سرداروں کے ذریعے سرمایہ کاری کرتی ہیں اسی طرح نواب عمران احمدخان نیازی کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے انتخابات سے قبل مختلف کمپنیوں اور سرمایہ کاروں نے ان پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور اس وقت ان کمپنیوں اور شخصیات کا کردار بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کمپنیوں اور شخصیات کے حوالے سے تو سردارجہانگیر ترین کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ بیشتر کا وسیلہ اور روٹ وہ تھے لیکن بیرونی طاقتوں اور بالخصوص امریکہ کے ساتھ جو وعدے وعید ہوئے ہیں وہ سردار شاہ محمود قریشی کے ذریعے ہوئے ہیں چنانچہ اس حوالے سے دونوں کا مقابلہ بہت سخت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں