259

اس قدر عام تو نہیں ہوتے :::::: شعر الہام تو نہیں ہوتے ::::: لبنی اشرف سیال

اس قدر عام تو نہیں ہوتے
شعر الہام م تو نہیں ہوتے
عشق میراث میں نہیں ملتا
خواب نیلام تو نہیں ہوتے
قیس فرہاد ،لیلیٰ و شیریں
یہ فقط نام تو نہیں ہوتے
سب کو شہرت نہیں ملا کرتی
سب پہ الزام تو نہیں ہوتے
ان کو تو بام و در سمجھتا ہے
یہ در وبام تو نہیں ہوتے
کچھ پرندے ہوا کے قیدی ہیں
سب تہہ دام تو نہیں ہوتے
شہر کھنڈرات میں بدلتے ہیں
دشت گمنام تو نہیں ہوتے
تم پہ ہی کھُل نہیں سکے ورنہ
لوگ ابہام تو نہیں ہوتے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں