330

بہاولپور میں دولے شاہ کے چوہے کے ہاتھوں شہید ہونے والے استاد کے ہی ایک شاگرد کی تحریر پڑھ لیجے میرا سلام ہو اس طالب علم پر جس نے وقت پر اپنے حصے کا سچ بولا اور جرات سے لکھ دیا ( حیدر جاوید سید) روفیسر خالد حمیدِ۔رپوٹ طلحہ

بہاولپور میں دولے شاہ کے چوہے کے ہاتھوں شہید ہونے والے استاد کے ہی ایک شاگرد کی تحریر پڑھ لیجے میرا سلام ہو اس طالب علم پر جس نے وقت پر اپنے حصے کا سچ بولا اور جرات سے لکھ دیا ( حیدر جاوید سید)
روفیسر خالد حمیدِ

دنیا میں انسان بہت سے لوگوں کے سامنے زانو تلمذ طے کرتا ہے لیکن ان میں سے چند ہی ہوتے ہیں جو آپکو زانو سے پیروں پر کهڑا ہونا سکهاتے ہیں اور پهر اڑنا، سر خالد حمید بهی وہی استاد تهے.. کتنا عجیب لگ رہا کہ اس انسان کے نام کے آگے بهی “تها” لگانا پڑا.
آج کا دردناک اور لرزه خیز واقعہ ہم سب کے سامنے ہے ایک مذہبی جنونی طالبعلم نے اپنے ہی استاد کا خنجر سے قتل کردیا، یہ دکھ اس قدر بڑا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل کہ ایهی اس عظیم ہستی کو سپردخاک کر کےآیا ہوں، طبیعت اجازت نہیں دے رہی لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح اس واقع کو رنگ دیا جا رہا ہے تو مجبورا لکهنا ضروری ہے سب سے پہلے آپ کو مختصر سر کا اور اس بدبخت قاتل کا تعارف اور پهر اس واقع کی مسلم روداد سناتا ہوں.
سر خالد حمید ایس ای کالج شعبہ انگلش کے مایہ ناز استاد تهے آپکی علمی استداد، آپکا انداز بیان، بہاولپور کا ہر وه طالب علم جس نے آپکا ایک لیکچر بهی لیا آپکا گرویده ہوگیا،یہ بات آج ایس کالج کے گراؤنڈ میں جنازے میں موجود نوجوان طلبا کی تعداد نے ثابت بهی کردی، صوم و صلواة کے پابند، نفیس لہجہ، سٹوڈنٹ کے حق کی خاطر خود تکالیف برداشت کرنی، ہر لیحاظ سے انکو سپورٹ کرنا کوشش کرنا کے کوئی کولیگ تو دور سٹوڈنٹ بهی آپ سے خفا نہ ہوجائے کسی کولیگ کی بلواسطہ بهی برائی نہیں کی ، ڈائس سے کبهی کوئی غیر اخلاقی یا مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ کبهی مذہب کو چهیڑا تک نہیں یہ بات میں تبهی کر رہا ہوں کہ 3سال انکے پاس پڑها ہے وقت گزارا ہے سفر کیا ہے حال دل سنا اور سنایا ہے یہ باتیں محض لیپا لپٹی نہیں انکا ہر سٹوڈنٹ تائید کرے گا.

پهر آخر اس پیارے انسان کو انہی کے سٹوڈنٹ نے مارا کیوں؟

خطیب حسین 5th سمسٹر کا لڑکا ہے یعنی میرا جونئیر، یزمان کا رہائشی یہ لڑکا مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے اسکے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ پچهلے چھ مہینوں سے اس کا انداز تهوڑا مختلف ہو گیا مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مزاق کی گپ شپ گو بهی حرام قرار دیتا اور ایک بار تو مولانا خادم کا فتوی پیش کیا کہ ہنسنا حرام ہے پڑهنے میں بہتر تها کلاس میں خاموش رہتا.
سر نے پانچویں سمسٹر میں انکو پڑهانا شروع کیا ینی ابهی 2ماه ہی ہوئےتهے.
ہماری اینول پارٹی کا وقت آن پہچا پارٹی سے 2دن پہلے پورے کالج میں پروپیگنڈا کے تحت پمفلٹ لگے ہوئے پائے گئے کہ انگش ڈیپارٹمنٹ کی ہونے والی پاڑٹی کنجرخانہ ہے یہاں فحاشی ہوتی ہے یہاں یورپیین کلچر کو لایا جا رہا یہ اسلام کے منافی ہے اور نیچے منجانب طلبہ لکها ہوا تها یہ پمفلٹ نہیں معلوم کس نے بنوایا جس نے بهی بنوایا اس سے میرے دو سوال ہیں
1-جب پارٹی ابهی ہوئی نہیں تم پر وحی اتری کہ پارٹی میں یہ سب ہونے جا رہا ہے؟
2-اتنی سلیس اردو میں لکهے پمفلٹ میں محض انگلش ڈیپارٹمنٹ کا نام کیوں باقی ڈیپارٹمنٹس کی پارٹی پر سانپ سونگھ گیا تها؟
(پارٹی دراصل ایک اینول ڈینر ہوتا ہے جس کی تیاری سر حالد کے ساتھ مل کر ہم سبهی طالبہ و طالبات مل کر کرتے جس کا آغاز تلاوت قران پاک اور نعت سے ہوتا ہے)

اس پمفلٹ واقع کے اگلے دن صبح جب سر آفس میں آئےتو خطیب حسین انکے پیچهے کمرے میں چلا آیا اور اور نیچے گرا کر پہ در پہ خنجر کے وار کرتا رہا ہمارے چونکہ لیکچرز دیر سے ہوتے تو صبح کے وقت زیاده تعداد نہیں ہوتی ایک لڑکی نے جیسےدیکها تو چیخ مار کر بیہوش ہوگئی اسکی چیخ کی آواز سے لڑکے بهاگ کر گئے تو دیکها وه جنونی خنجر سےمار کر خود اطمینان سے کرسی پر بیٹها ہے ایمبولین آگئی ڈولفن پولیس پہنچ گئی سر تو اسی وقت دم توڑ گئے اسی واقواع پر جب ایک اہلکار نے خطیب سے پوچها کہ تم نے وار کیوں کیا تو اسکا کہنا تها کہ یہ اسلام کے خلاف بولتا تها،
اس بدبخت نے سراسر جهوٹ بولا ہے،سر کو پڑهاتے20 سال سے اوپر ہوگئے ہوں گے آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وه ایسا کچه کہیں گے سر نے 10 سال سعودہ عرب میں گزارے ہیں 3 سے 4 بار حج کر رکها ہے، ہر جمعہ ایک خوبصورت شلوار قمیض میں آتےاور لیکچر کے آغاز میں خدا کی نعمتوں کا ذکر اور اسکا شکریہ ادا کرنے کی تلقین ہوتی یہ انکی فطرت تهی انکا بس جرم یہ تها کہ وه منافق نہ تهے میں نے تین سالوں میں اس جیسا خوبصورت انسان نہیں دیکها جو ایک وقت میں انگریزی ادب کا بہترین معلم، اسی لمحےایک اچها مسلمان، ایک اچها دوست اور شفیق والد تها.

خطیب حسین نے یہ سب خود نہیں کیا یقین اس کے پیچهے وه سوچ کار فرما ہے جس سے نہ مشعال خان بچ سکا اور نہ اب سر خالد. یہ عجیب بات ہے کہ آپ کسی ذاتی عناد کی وجہ سے سے اسے اسلام دشمن کہیں اور قتل کر دیں یہ کونسا اسلام اجازت دیتا ہے ایسے تو اب جس کا دل چاہے وه نوٹس لگائے اور اگلے دن اسے قتل کردے کیا یہی وه اسلام تها جو فتح مکہ کے موقع پر دیکهنے کو ملا؟ نہیں یہ اسلام نہیں بلکہ اسلام کا استعمال ہے اپنی رنجشوں کی آڑ میں آخر کب تک ہم ان جهوٹے انتہا پسند مولویں کی وجہ سے جانیں گنوائیں گے، کب تک ہم اپنے معلم، دانشور کهوئیں گے؟
آج صرف سر خالد کا قتل خطیب حسین کے ہاتهوں نہیں ہوا بلکہ علم کو جاہل نے خنجر سے مار ڈالا
اس واقع کی انکوائری جاری ہے، اس پوسٹ کو لکهنے مقصد یہ ہے کہ آپ غلط پروپیگنڈا میں مت آئیں نہ اسے آگے پهیلائیں، بلکہ آواز بلند کریں ایک معلم آج اس معاشرے میں انصاف مانگ رہاہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں