ملک ریاض کا پوری جکومت کی مشینری کے منہ پر طمانچہ
اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست دان کرپٹ
بزنس میں کرپٹ
ملک کرپٹ
عدلیہ کرپٹ
کرپشن ختم کرنے کے ادارے کرپٹ
ہم من حثیت القوم کرپٹ
جہاں اخلآقی جرم کو ذاتی جرم کہا جاے گا
جہاں گناہ کبیرہ کی توجہیات پیش کی جاینگی
جہاں مزاروں کو سجدہ کرنے کو سجدہ تعظیم کہا جاے گا
جہاں اخلاقیات کے بجاے مالیات پر زور دیا جاے گا
وہاں کی قوم ملک ریاض جیسے ہی لوگ پیدا کرے گئ
ہمارے نبی نے پیسہ کی بنیاد پر اسلام کی بنیاد نہیں رکھی تھی
انھوں نے اخلاقیات کی بنیاد پر اسلام کی عمارت کھڑی کی تھی
میں مانتا ہوں کہ پیسہ یا جرمانہ لیا صیح لیا لیکن سزا کہا گئ
اس سے پیسہ لے کر اس کو موت کی سزا یا پچیس یا تیس سال جیل ہوتی تو کہتے کہ صیح پیسہ لیا اور لوگوں کو سبق ملتا۔
اس کو نشان عبرت بناتے
پہلے افراد رشوت لیتے تھے پہلے لوگ کرپٹ تھے
اب حکومت رشوت لیتی ہے اور حکومت کرپٹ ہے
اب عدالت اور ریاست رشوت لیتی ہے
اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری قوم اور عدالت رشوت خور ہے
اب ہمارے ملک خداداد پاکستان میں رشوت قانونی ہے
بھای ہمیں پیسہ چاہئیے
چاہے قرضہ دو یا رشوت دو
ہمارا دین ایمان پیسہ ہے
نیکی کے کام کرو مسجدیں بناؤ۔ چاہے وہ رشوت اور حرام کے پیسے سے کیوں نہ ہو
ہم سے بہتر تو مکہ کے کافر تھے ابوجہل وغیرہ تھے جنہوں نے کعبہ کی تعمیر نو۔ میں پہلی شرط یہ رکھی تھی کہ اس میں کوی حرام کا پیسہ استعال نہیں ہوگا
اللہ تعالئ نے جب بھی قوموں پر عذاب نازل کیا زیادہ تر اخلاقی تباہی کی وجہ سے
ڈاکٹر سید ندیم احمد