537

لوگ کہتے ہیں وکیل کی کمائی حرام ہوتی ہے مگر کسی نے کبھی وجہ نہیں بتائی۔تو سوچا ذرا حساب لگایا جائے باقی کونسے لوگ حلال کمارہے ہیں۔رپوٹ ایڈوکیٹ ارسلان سندھو

لوگ کہتے ہیں وکیل کی کمائی حرام ہوتی ہے مگر کسی نے کبھی وجہ نہیں بتائی۔تو سوچا ذرا حساب لگایا جائے باقی کونسے لوگ حلال کمارہے ہیں۔
سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب!
سرکاری تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے۔ کلینک میں فیس 800 روپے۔ ہسپتال میں کام %0. کلینک میں کام %10. کیونکہ ساری بیماری مریض خود ہی بتادیتاہے بغیر کسی چیک اپ کے۔سرکاری ہسپتال سے اپنی من پسند لیبارٹری اور میڈیکل سٹور کو مریض ریفر کر کے %50 کمیشن۔ تو یہ ہوئی ڈاکٹر کی “حلال کمائی”؟
(2) اساتذہ کرام!
سال میں 365 دن۔ سرکاری اور دیگر چھٹیاں 185. سالانہ حاضری صرف 180 دن۔ اور تنخواہ پورے 365 دن کی۔ تین ماہ گھر بیٹھے بغیر کسی محنت کے پوری تنخوہ۔یہ ہوئی اساتذہ کی “حلال کمائی”.
(3) بنک والے حضرات
سود کا کاروبار۔ پانچ روپے قرض لو اور 10 سال بعد سالانہ اضافے کے ساتھ 5000 واپس کرو۔100 روپے اکاؤنٹ میں رکھو اور بغیر کسی محنت کے سالانہ منافع لیتے جاؤ۔ نام نہاد کٹوتی ذکوٰۃ کے نام پہ۔ یہ ہوئی بنک والوں کی “حلال کمائی”.
(4) پولیس والے دوست
کسی کو بھی پکڑ لو۔ اگر پارٹی اچھی ہے تو 500, 1000, 10000 لے کےمعاملہ وہیں ختم کردو۔اگر بندہ غریب ہے تو 3 چار کلو چرس ڈال کے بند کردو۔ گھروالے آئیں تو مچھلی، گوشت، چائے، یا پھر اپنی چوکی مرمت کرنے کے بہانے 30 سے 50 ہزار مانگ لو۔ انکار کی صورت میں ایک دو چوری کے کیس بھی اس پر ڈال دو۔گاڑی یا موٹرسائیکل قبضے میں لیکر اسکے پرزے، انجن، ٹائر وغیرہ نکال کے بیچ دو یا اپنی گاڑی میں لگا لو۔ یقین کریں پولیس جتنی محنت کرکے “حلال کمائی” کوئی اور نہیں لے سکتا۔
(5) ڈرائیور
سارا دن ہر چھوٹے بڑے کو بے عزت کرتے ہیں۔ انکی بھوکی حوس زدہ نظروں سے کوئی بھی عورت نہیں بچ سکتی۔فرنٹ سیٹ اپنی من پسند “سواری” کے لیے۔ 7 کلومیٹر کا کرایہ 50 روپے۔ اور 35 کلومیٹر کا کرایہ 60 روپے۔ یقین نہیں آتا؟ ہری پور سے ایبٹ آباد 38 کلومیٹر اور کرایہ صرف 60 روپے ہری پور کے مضافات میں گاؤں کا فاصلہ صرف 7کلومیٹر۔ اور کرایہ 50 روپے۔ اسکو کہتے ہیں محنت کی “حلال کمائی”.
(6) دکاندار
20 لیٹر دودھ میں 10 لیٹر پانی ملاؤ اور پاؤڈر کی بوری مکس کرکے 50 لیٹر دہی بناؤ۔پھر 100 روپے لیٹر بیچ دو۔گویا 1200 لگایا اور 5000 منافع۔ اسی پانی ملے دودھ کو مزید پانی ڈال کر بیچتے جاؤ۔ ہر چیز میں پتھر، ریت اور لکڑی کی ملاوٹ کرکے وزن دگنا کرو اور کم وزن والے ترازوپر مقناطیس لگا کر کم تول کے بیچتے جاؤ۔ دکانداروں کی “حلال کمائی”
(7)گوالے (دودھ والے)
دو لٹر دودھ لو۔ اس میں سرف اور آئل مکس کرکے 20 لٹر “خالص” دودھ بناکر بیچ دو۔ واہ رے “حلال کی کمائی”۔
اس طرح کی ہزاروں لاکھوں مثالیں ہیں اور اور ہر محکمے میں ایسا خودساختہ “حلال” کمانے والے موجود ہیں۔جنکی تفصیل میں جائیں تو شاید ہمارا زندہ رہنا ممکن نہ رہے۔۔!!
اس لیے آئندہ سے کسی بھی وکیل پر انگلی اٹھانے سے پہلے زرا اپنے گریبان میں جھانک لیں اور اپنی نوکری کا پتا کروالیں آپ کتنا “حلال” کما رہے ہیں۔جبکہ ہم وکلاء صرف فیس ہی نہیں لیتے ساتھ لیتے ہیں پریشانی اپنے کلائنٹ کی۔ وہ جا کہ گھر سکون سے سوتا ہے اور وکیل راتیں جاگتا ہے اس کے لیے ، اس کے حق کے لیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں