355

لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کا بڑھتا ہوا خطرناک رجحان ایک لمحۂ فکریہ ۔رپورٹ :طلحہ راجپوت

#لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کا بڑھتا ہوا خطرناک رجحان ایک لمحۂ فکریہ ہے.

آ ج سے تقریباً پندرہ سال پہلے معاشرے کا جو رجحان تھا،اس کے مطابق جس لڑکی کی شادی پچیس سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی،تو ایسی شادی کو بروقت گردانا جاتا۔پچیس کی عمر کا ہندسہ عبور کرنے کا یہ مطلب لیا جاتا کہ لڑکی کے رشتہ میں دیر ہوگئی ہے۔

اس سے پہلے کا معلوم نہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ دیری کا یہ پیمانہ تین چار سال پہلے تصور کیا جاتا ہو۔
پھر سات آٹھ سال پہلے یہ صورتحال ہوئی کہ تیس سال کی عمر سے پہلے پہلے لڑکی کی شادی بروقت قرار دیے جانے لگی۔
یعنی محض سات آٹھ سال میں پانچ سال کا فرق آگیا۔

اب بھی ایسے معاملات ہیں کہ اکثر گھروں میں لڑکیوں کی عمریں تیس سے چالیس کے درمیان ہوچکی ہیں لیکن رشتہ ندارد۔

یہ رشتہ میں دیری کا رجحان ہمارے معاشرے میں ایسی خاموش دراڑیں ڈال رہا ہے جو معاشرتی ڈھانچے کے زمین بوس ہونے کا پیش خیمہ ہیں۔لیکن حیف کہ اس کاعملی ادراک معاشرے کے چند لوگوں کو بھی نہیں۔

آئیں!
اس دیری کی وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
#پہلی وجہ:
لڑکوں کا تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانا اور لڑکیوں کا اس میدان میں آگے نکل جانا ہے، پچھلے کئی سالوں کے بورڈ امتحانات کے نتائج اس بات کے شاہد ہیں،اس کی وجہ سے تعلیم کے لحاظ سے ہم پلہ رشتہ ملنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔شہروں میں کچھ سالوں سے لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے پی ایچ ڈی کے رجحان نے اس کو اور مشکل بنا دیا ہے۔

#دوسری وجہ:
اچھی تعلیم حاصل ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کو روزگار کے مواقع نسبتاً آسانی سے مل جاتے ہیں۔
اس کے دو اثرات سامنے آئے ہیں۔
ایک:والدین کا ان لڑکیوں پر مالی انحصار کرنا شروع ہوجانا،
دو:نوکریوں کے لحاظ سے ہم پلہ رشتے نہ ملنا۔
#تیسری وجہ:
کچھ والدین کا اس معاملہ میں بالکل ہل جل نہ کرنا ہے۔لڑکیوں کی عمریں اٹھائیس اٹھائیس سال ہوجاتی ہیں لیکن انھیں کم عمر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اٹھارہ بیس کی عمر میں مائیں رشتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجایا کرتی تھیں۔

#چوتھی وجہ:
جس لڑکی کی عمر تیس سال سے اوپر ہوجاتی ہے اس کے لئے عمر کے لحاظ سے رشتے مشکل ہوجاتے ہیں کیونکہ اکثر لڑکے والے کم عمر لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

#پانچویں وجہ:لڑکے والوں کے حد درجہ نخرے ہیں۔اول تو کوئی لڑکی، لڑکے کی ماں بہن کوبھاتی نہیں،فقط کھانے پینے سے لطف اندوز ہونا ہی شایدمقصد ہوتا ہے۔اگر کوئی لڑکی پسند آبھی جائے تو پھر فرمائشوں اور رسوم و رواج کے نام پر لڑکی والوں کا مکمل استحصال کیا جاتا ہے۔ہمارے ایک ایسے دوست ہیں جن کے گھر والوں نے بیاسی جگہ ان کا رشتہ دیکھا،پھر ایک جگہ ہاں کی،کچھ عرصہ بعد وہاں سے رشتہ توڑنے لگے تو ان دوست نے انکار کردیا کہ میں مزید تماشا نہیں دیکھ سکتا۔

#چھٹی وجہ:
شہروں میں ایک عجیب وجہ سامنے آئی ہے؛لڑکی کے والدین لڑکے میں وہ تمام کامیابیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو پچاس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں۔مکان اپنا ہو،گاڑی پاس ہو،تنخواہ کم از کم اتنی ہو وغیرہ وغیرہ۔میں اپنے ایک انجینئر دوست کا رشتہ کروانے کی کوشش میں تھا؛لڑکا لائق فائق،خوش شکل،نوکری اچھی،لڑکی کی ماں کو بہت پسند تھا،لڑکے والے بھی راضی تھے لیکن اچانک لڑکی کے والدین نے انکار کردیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ لڑکے کے پاس اپنامکان نہیں،وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔اب ایسے رویوں کا کیا کیا جائے؟کیا یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں؟

#ساتویں وجہ:
خاندانوں کے اندر ایک عجیب و غریب وجہ دیکھنے میں آرہی ہے۔ہر ماں اپنی بیٹی کا رشتہ خاندان میں بخوشی کرنے پر راضی ہے لیکن جب اپنے بیٹے کا معاملہ آتا ہے تو خاندان کی سب لڑکیوں پر ناک بھوں چڑھا لیا جاتا ہے اور بڑے طمطراق اور فخر سے خاندان سے باہر کی لڑکی لائی جاتی ہے۔

#آٹھویں وجہ سید اور غیر سید کا فرق.
اس کے علاوہ مزید وجوہات بھی ہونگی۔وجوہات جو بھی ہوں لیکن یاد رہے کہ اس سے ہمارا معاشرتی نظام درہم برہم ہورہا ہے اورہماری نوجوان نسل بروقت شادی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا کی پھیلائی ہوئی بے حیائی کا بآسانی شکار ہورہی ہے۔اور جو محفوظ ہے وہ اپنے ساتھ ایک خاموش نفسیاتی جنگ کا شکار ہے۔
مغرب تو اس طرز سے اپنے آپ کو برباد کر چکا اور ان کی آبادی اب ریورس گیئر میں چل رہی ہے لیکن ہم جانتے بوجھتے خود اس گڑھے میں گر رہے ہیں اور وہ بھی ہنستے مسکراتے۔
اور ہم سب اس اجتماعی خرابی اور زوال کے ذمہ دار ہیں۔
صدافسوس!
کشتی ڈوب رہی ہے اور کشتی کے ملاح اور مسافر بے نیاز۔
حیراں ہوں،دل کو روؤں کہ پِیٹوں جگر کو مَیں

ابھی بھی وقت نکلا نہیں ہے ۔ اس کشتی کو بچایا جا سکتا ہے ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں