322

مڈل ایسٹ سعودی عرب : ایک صحافی کے قتل کی مختصر داستان : لبنی اشرف سیال

(سعودی صحافی جمال)
کچھ عرصے پہلے سعودی حکومت نے آل سعود کے حکومتی مظالم، غلط سیاستوں اور خاص کر امریکہ کے ساتھ نزدیکی اور غلامانہ تعلقات پر تنقید کرنے کی وجہ سے ایک سعودی جرنلسٹ اور رائٹر جمال خاشوگی کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن خاشوگی بر وقت اطلاع مل جانے پر کسی بہانے سعودیہ سے ترکی فرار ہوگیا۔
پچھلے مہینے جمال خاشوگی کو ایک ترک عورت سے شادی کرنے کے لیئے سعودی سفارتخانہ سے این او سی لینے کی ضرورت پڑ گئی اور اس نے سفارتخانے سے ٹائم لے لیا. دو ہفتے پہلے وہ استبول میں سعودی سفارتخانے کے اندر داخل ہوا. سعودی سیکورٹی اداروں کی طرف سے فراہم کی گئی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کے مطابق جمال کے سفارتخانے میں داخل ہونے کے ایک گھنٹے بعد 15 افراد جو خصوصی طیارے کے ذریعے استبول پہنچے تھے اور ترکی میڈیا کے مطابق ان افراد میں سعودی سیکیورٹی فورس خاصکر ولی عہد محمد بن سلمان کی سیکورٹی کے افراد شامل تھے, خصوصی گاڑیوں کے ذریعے سفارتخانے کےاندر چلے گئے. تین گھنٹے بعد وہ افراد دوبارہ باہر آئے اور پھر خصوصی طیارے کے ذریعے واپس چلے گئے۔

دوران تفتیش سعودی سفارتی حکام جمال خاشوگی کے سفارتخانے سے باہر نکلنے کی کوئی فوٹیج فراہم نہیں کرپائے اور پھر ممکنہ طور پر چند دنوں کے بعد جمال خاشوگی کی ٹکڑے ٹکڑے اور مسخ شدہ لاش استنبول شہر کے ایک علاقے سے برامد ہوئی. لاش کے پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا ہے کہ اس کو زندہ حالت میں ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا ہے یہاں تک کہ چہرے اور باقی جسم سے کھال بھی زندہ حالت میں نکالی گئی. یہ ظلم اور بربریت کا ایک ایسا مظاہرہ تھا جس کی مثال مہذب معاشرے میں نہیں مل سکتی اور (ینگ جرنلسٹ سوسائٹی انٹرنیشنل) سمیت دنیائے صحافت کی معروف تنظیموں نے صحافی کے ساتھ ھونے والی بربریت کی بھرپور مذمت بھی کی۔

شروع شروع میں تو سعودی حکومت خاشوگی کے قتل میں ملوث ہونے سے مسلسل انکار کرتی رہی لیکن پھر اچانک استنبول میں سعودی سفیر نےدوران تفتیش سعودی حکام کی طرف سے جمال کے قتل کیئے جانے کا اعتراف کرتے ہوئے کسی مغربی ملک میں سیاسی پناہ لینے کی درخواست دائر کر دی۔

یہ ہے ایک صحافی کے قتل کی مختصر داستان. اب آگے کیا ہوگا یہ دیکھنا ہے.

– کیا اس بے گناہ مقتول کا لہو رنگ لائے گا اور مزید مکروہ چہرے بے نقاب ہوں گے?

– کیا عالمی برادری اس گھناونے جرم کے ارتکاب پر سعودی شاہی خاندان کو سزا دے پائے گی?

– یا پھر سعودی حکومت بھاری سرمایہ خرچ کرکے اداروں اور بعض حکمرانوں کو خرید کر اپنے پچھلے گھناونےجرائموں کی طرح اس بہیمانہ جرم پر بھی پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی?

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں