امام زین العابدین میرا مظلوم امام
تحریر: آصف ممتاز ملک، ایڈووکیٹ۔
25 محرم الحرام امام زین العابدینؑ سد الساجدین کا یوم شہادت ہے- امام زین العابدینؑ حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے پوتے، حضرت امام حسنؑ کے بھتیجے اور حضرت امام حسینؑ کے فرزند ہیں اور اس طرح سے آپ براہ راست حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاک و پاکیزہ خاندان کے چشم و چراغ اور اہل تشیع کے چوتھے امام ہیں۔
آپ حضرت امام محمد باقرؑ کے والد اور حضرت امام جعفر الصادقؑ کے دادا بھی ہیں۔
آپ کا اسم مبارک علی جبکہ القابات ‘زین العابدین’ یعنی عبادت گزاروں کی زینت۔
سید الساجدین یعنی سجدہ کرنے والوں کے سردار ہیں۔
آپ بیحد عبادت گزار ہستی تھے اور آپکا زیادہ تر وقت عبادات و مناجات میں گزرتا تھا۔ آپ سے منسوب دعاوں کا ایک بہت بڑا زخیرہ آج بھی انسانیت کی ہدایت اور قرب الٰہی کیلئے مشعل راہ ہے۔ آپ کی دعاوں کا مجموعہ صحیفئہ سجادیہ اور صحیفئہ کاملہ کے نام سے مشہور ہے جس میں اعلی ترین اصلوب دعا اور حیران کن اثر رکھنے والی دعائیں موجود ہیں اور تمام مکاتب کے عوام و خواص اسے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔
واقعہ کربلا کے وقت سید سجاد کی عمر مبارک 22 سال تھی لیکن انتہائی بیمار ہونے کے باعث آپ جنگ کیلئے میدان میں نہ جاسکے اور اسی کارن آپ کی زندگی کربلا میں محفوظ رہی اور آپ سے ہی نسل رسولؐ آگے بڑھی اور آپ ہی واقعئہ کربلا کے راوی قرار پائے۔
واقعہ کربلا کے بعد جو مصائب امام زین العابدینؑ نے برداشت کیئے وہ مصائب تاریخ انسانی میں کسی نے برداشت نہیں کیئے۔
کربلا کے بعد آپ جتنا عرصہ زندہ رہے آپ کبھی نہیں مسکرائے اور ہمیشہ کربلا کے واقعات کو یاد کرکے روتے رہتے تھے۔
جب آپکا بازار سے گزر ہوتا تو قصاب زبح شدہ جانوروں کے گوشت کو کپڑے سے ڈھانپ دیتے تھے کہ کہیں امام کی نظر نہ پڑ جائے۔
امام اکثر قصاب کے پاس رک جاتے اور قصاب سے پوچھتے ‘تمہیں جانور زبح کرنے کی شرائط تو معلوم ہیں نا؟’ تو قصاب بڑے ادب سے کہتا جی مولا، تو امام سجاد اصرار کرتے کہ بتاو کیا شرائط ہیں جس پر قصاب کہتا مولا پہلی شرط یہ ہے کہ زبیحے کو زبح کرنے سے پہلے اسقدر پانی پلاو کہ جب تک وہ خود اپنا منہ پانی سے نہ ہٹا لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سن کر امام سجادؑ کربلا کی جانب رخ کرکے زار و قطار رونا شروع کر دیتے اور کہتے ہائے وہ کتنے ظالم تھے کہ میرے بابا کو انھوں نے پیاسا شہید کردیا۔
ایک دفعہ ایک شخص نے امام سجادؑ سے سوال کیا ‘یا امام آپ کربلا کو یاد کرکے ہر وقت کیوں روتے رہتے ہیں جبکہ آپ کے بابا حسینؑ اور انکے ساتھی شہید ہیں اور شہادت آپکی میراث ہے’ تو امام نے جواب میں کہا “اے پوچھنے والے تو نے انصاف نہیں کیا کیا یہ بھی ہماری میراث ہے کہ ہماری خواتین کو بازاروں میں بے پردہ پھرایا جاتا”۔
ایک دفعہ ایک شخص نے سوال کیا ‘یہ بتائیں کہ کربلا میں آپکی یزید(لع) سے جنگ ہوئی اور آپکا خاندان مارا گیا جبکہ یزید تخت پر بیٹھا رہا تو پھر جیتا کون؟’ اس پر امام نے فرمایا اے پوچھنے والے جب نماز کیلئے اذان دی جائے تو اسے غور سے سننا اگر آذان میں ‘ محمد رسول اللہ’ کا کلمہ ہو تو سمجھنا ہم جیت گئے اور اگر آذان میں محمد رسول اللہ کا کلمہ نہ ہو تو سمجھنا یزید جیت گیا۔
جو پانچ وقت موذن اذان دیتے ہیں
حسین جیت گئے یہ بیان دیتے ہیں