1,808

قائد اعظم کو شیعہ کیوں کہتے ھیں شادی کس کی اور بیٹی کس حال میں رہی

قائد اعظم کو شیعہ کیوں کہتے ھیں شادی کس کی اور بیٹی کس حال میں رہی خفیہ پہلو سے پردہ اٹھاتی تحریر ۔ : اصف علی خان
19 اپریل 1918
قائد اعظم محمد علی جناح نے رتی جناح جو بعد میں مریم جناح کہلائیں، سے دوسری شادی کی تھی

مریم جناح نے قائداعظم سے شادی کے وقت مذہب تبدیل کرکےاسلام قبول کیا تھا اور ان کا اسلامی نام مریم جناح رکھا گیا تھا۔

مریم جناح سرڈنشا پٹیٹ کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کا خاندان کپڑے کی صنعت میں بہت بڑا نام تھا۔ مریم جناح 20 فروری 1900ء میں بمبئی میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے پردادا سوات سے 1785ء میں بمبئی آئے تھے اور پھر وہیں بزنس کرنے لگے۔ اُنکے بیٹے ڈنشا مانک جی نے بمبئی میں برصغیر کی پہلی کاٹن مل کی بنیاد رکھی۔ 1900ء صدی کے اختتام تک مانک جی کا خاندان بمبئی کے امیر ترین خاندانوں میں جانا جانے لگا۔ ممبئی کے رئیس پارسیوں میں اہمیت کے حامل ڈن شا پٹیٹ کی اکلوتی خوبصورت اور خوب سیرت بچی جو بڑے ناز و نعم میں پل رہی تھی، اُس کا نام رتن بائی تھا۔ یہ بچی نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ بہت ذہین اور صاحب ذوق تھی۔ رتن، جنہیں گھر کے لوگ پیار سے “رتی” کہہ کر پکارتے تھے، شاعرانہ مزاج رکھتی تھی۔ رتن بائی کو انگریزی شعرو ادب سے گہرا شغف تھا۔ط 14-13 سال کی عمر میں وہ ٹینی سن کیٹس اور شیلے جیسا شعراء کا کلام پڑھ چکی تھیں اور سمجھ چکی تھیں۔ رتی ایک خوش لباس خاتون تھیں، بمبئی میں امتیازی خصوصیت رکھتی تھیں۔ گورنروں، وائسراؤں اور اُمراء کی بیگمات اسکی ملبوسات اور زیورات کو بہت پسند کرتی تھیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ خواتین رشک کرتی تھیں تو غلط نہ ہو گا۔

ڈن شا کے مالا بار ہل پر واقع شاندار بنگلے پر قوم پرست ہندوستانی لیڈروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح سر ڈنشا پیٹٹ کے دوستوں میں سے تھے۔ سر ڈنشا پیٹٹ محمد علی جناح صاحب کی ذہانت، نفاست اور قابلیت کی وجہ سے ان کو بہت پسند کرتے تھے۔ جناح صاحب (قائداعظم) اکثر ان کے گھر جاتے جہاں خوب بحثیں ہوتیں۔ سترہ سالہ رتن، لمبے قد کے صاف رنگت والے چھریرے جسم کے سوٹڈ بوٹڈ جناح کی پر مغز بحثوں کو غور سے سُنتی، آہستہ آہستہ وہ جناح صاحب کو پسند کرنے لگیں۔ جناح کو چھوئی موئی سی رتی پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی۔ ان کی شخصیت نے رتن عرف رتی کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کی دوستی قربت اور پھر قربت محبت میں بدل گئی۔ اور پھر ایک دن یہ پسندیدگی محبت میں بدل گئی۔ جب رتی نے جناح صاحب سے اپنے دل کی بات کہہ دی اور شادی کی خواہش کا اظہار کر دیا۔

1917ء کی ایک شام جب قوم پرستی پر گفتگو کے دوران رتن کے والد ڈن شا نے یہ خیال ظاہر کیا کہ جب تک ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم نہیں ہوتی تب تک فسادات ہوتے رہیں گے اس لئے بین المذاہب شادیاں ہونی چاہئیں۔ عمر کی چالیس منزل پار کر چکے جناح کو ڈن شا کے اس خیال نے حوصلہ دیا اور انہوں نے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا۔ بس پھر کیا تھا ۔۔۔ آتش پرست ڈن شا پیٹیٹ کا خون کھول اٹھا اور وہ رات ایک تلخ یاد میں بدل گئی۔ ڈنشا نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ محمد علی جناح ان کی بیٹی سے عمر میں بہت بڑے ہیں، دوسرے یہ کہ دونوں کے مذہب الگ ہیں، رتی کا خاندان بمبئی کا مقبول ترین پارسی خاندان تھا۔ جناح صاحب نے رتی کو سمجھایا کہ ہماری شادی تمہاری 18 سال کی عمر سے پہلے نہیں ہو سکتی، ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔ ڈن شا نے رتی کے جناح سے ملنے جلنے پر پابندی لگ لگا دی تو جناح نے عدالت کے دروازے پر دستک دی۔ عدالت نے رتن کے بالغ ہونے تک اس سے ملاقات پر پابندی لگا دی، لیکن اس فیصلہ میں یہ کہہ دیا کہ بالغ ہونے کے بعد رتی اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کی مختار ہو گی۔ جناح نے بھی تقریبا ایک سال تک صبر و سکون کے ساتھ انتظار کیا، اس دوران جناح اور رتی کے بیچ پل کا کام جناح کے دوست اور سکریٹری کانجی دوارکا داس کرتے رہے۔ اس عرصہ میں رتی نے اسلام کا گہرا مطالعہ کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ مسلمان ہو کر قائداعظم محمد علی جناح صاحب سے شادی کریں گی۔

20 فروری 1918ء کو پیٹیٹ خاندان میں رتی کی اٹھارہویں سالگرہ خوب دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں چل رہی تھیں کہ اسی دن رتی خاموشی سے اپنے گھر کو چھوڑ کر جناح کے گھر چلی آئیں۔ ڈن شا اپنی بیٹی کی ضدی طبیعت سے تو واقف تھے لیکن انہیں اس سے اتنا بڑا قدم اٹھانے کی توقع نہ تھی۔ بیٹی کی بغاوت پر برہم ڈن شا نے مقامی اخبارات میں اپنی اکلوتی بیٹی کی موت کی خبر شائع کرا دی۔ اس کے بعد ڈن شا نے رتی کی موت تک کوئی رشتہ نہیں رکھا۔

18 اپریل 1918ء کو رتی نے بمبئی کی جامع مسجد کے امام مولانا نذیر احمد کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا، اگلے دن 19 اپریل 1918 کو وہ قائداعظم محمد علی جناح کے عقد میں آ گئیں۔ ان کا نکاح مولانا حسن نجفی نے پڑھایا تھا۔ بمبئی میں ہوئی نکاح کی اس چھوٹی سی تقریب میں صرف قریبی احباب مدعو تھے۔ رتی جو اب مریم جناح بن گئی تھی، کو قائداعظم ؒ کی جانب سے شادی کی جو انگوٹھی ملی تھی وہ راجہ صاحب محمود آباد نے قائداعظم ؒ کو تحفے میں دی تھی۔ 19 اپریل 1918ء کے روزنامہ ” اسٹیٹ مین ” میں رتی کے قبول اسلام کی خبر کے ساتھ جناح سے ان کے نکاح کی خبر شائع ہوئی۔

شادی کے بعد جب مریم جناح نے گھریلو زندگی کا آغاز کیا تو وہاں بھی اپنی ذہانت اور قابلیت سے اپنے گھر کو انتہائی ذوق و شوق اور سلیقہ سے آراستہ کیا۔ مریم جناح نے گھر کی تزئین و آرائش سے فارغ ہو کر اپنے شوہر کے دفتر کی جانب بھی توجہ دینا شروع کی اور اسے بھی اعلیٰ ذوق کے مطابق ایک خوبصورت رنگ دے دیا۔ دونوں کی محبت ایک مثالی محبت تھی۔

رتی جناح نفاست اور فہم کی مثال تھیں۔ آپ کو ڈرامے، ادب اور شاعری سے دلچسپی تھی۔ آپ کی کتابوں کا ایک خزانہ ہوا کرتا تھا۔ قائد اعظم نے آپ کے جانے کے بعد بھی آپکی کتابیں سنبھال کر رکھی ۔ رتی جناح کو ادب، شاعری، لٹریچر، روحانیت اور جادو جیسے مضامین سے بہت دلچسپی تھی۔ انہی مضامین کی کتابیں رتی نے اکٹھی کر رکھی تھیں۔ رتی جناح اور محمد علی جناح دونوں کو شیکسپیئر بہت پسند تھا۔ رتی جناح گھڑ سواری میں بھی ماہر تھیں۔ آپ کو دیکھو تو لگتا تھا جیسے کوئی حسین پری ہو۔

آپ کو انگریزوں سے سخت نفرت تھی۔ یہاں تک کہ ایک بار کسی جرنلسٹ نے آپ سے پوچھا کہ اگر قائد اعظم کو اپنی گراں قدر خدمات کے نتیجے میں نائیٹ شپ دی جائے اور سر کا خطاب دے دیا جائے تو آپ لیڈی جناح۔۔نائیٹ کی بیوی بننا پسند کریں گی؟ رتی جناح کو انگریزوں سے اتنی نفرت تھی کہ آپ طیش میں آگئیں اور بولیں کہ اگر میرے خاوند نے نائٹ شپ قبول کر لی تو میں ان کو چھوڑ دوں گی۔انہیں انگریزوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ وہ کم عمر تھیں مگر بہت پڑھی لکھی تھیں۔ جس طرح محمد علی جناح تقریر کرتے تھے تو انگریزوں کو ڈکشنری کھولنی پڑ جاتی تھی اسی طرح رتی جناح بھی کتابی کیڑا تھیں اور اپنے علم کی وسعت کے باعث انگریزوں کی برتری کو نہیں مانتی تھیں۔ وہ انگریزوں سے بالکل امپریس نہیں ہوتی تھیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح ایک کامیاب وکیل ہی نہیں کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈر بھی تھے اور ان کا زیادہ وقت وکالت کے علاوہ سیاسی سماجی مصروفیات میں گزرتا تھا۔ آہستہ آہستہ قائداعظم کی مصروفیات میں اضافہ ہونے لگا۔ بے حد نازک مزاج اور شعر و ادب کی دلدادہ لڑکی نے اسے شاید جناح کی بے التفاتی تصور کیا۔ شادی کے دس سال بعد تو مریم نے جناح سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور وہ تاج محل ہوٹل میں ایک سویٹ بک کر کے وہاں مستقل سکونت کے لئے منتقل ہو گئیں۔ تنہائی اور فکر ان کے جسم و جاں کا آزار بن گئے۔ انہیں آنتوں میں سوزش اور پھر ٹی بی ہو گئی۔ رتی کی ماں ان کا علاج یورپ میں کرانے کے لئے مریم جناح کو لے کر پیرس چلی گئیں۔

1928ء میں قائداعظم کو مریم جناح کی بیماری کی اطلاع ملی تو وہ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر پیرس پہنچ گئے اور انکی تیمار داری کرتے رہے۔ انکی محبت کا یہ عالم تھا کہ مریم جناح کیلئے جو پرہیزی کھانا بنتا وہ بھی وہی کھانا اپنی پیاری بیوی کے ساتھ کھاتے۔ کچھ عرصے بعد مریم جناح صحت یاب ہو کر بمبئی آ گئیں۔ مگر افسوس جنوری 1929ء میں پھر بیماری ہوئیں۔

مریم جناح کا جناح کے نام آخری خط ایک یادگاراور امر بن گیا:

’’پیارے ! تم نے (میرے لئے) جوکچھ کیا، اس کا شکریہ۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کی غیر معمولی حِسّوں نے میرے رویّئے میں اشتعال انگیزی یا بے رحمی پائی ہو۔ آپ یقین رکھیں کہ میرے دل میں صرف شدید محبت اور انتہائی درد ہی موجود ہے ۔۔۔ پیارے ! ایسا درد جو مجھے تکلیف نہیں دیتا۔ دراصل جب کوئی حقیقت زندگی کے قریب ہو (اور جو بہرحال موت ہے) جیسے کہ میں پہنچ چکی، تو تب انسان (اپنی زندگی) کے خوش کن اور مہربان لمحے ہی یاد رکھتا ہے، بقیہ لمحات موہومیت کی چھپی، اَن چھپی دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ کوشش کر کے مجھے ایسے پھول کی حیثیت سے یاد رکھنا جو تم نے شاخ سے توڑا، ویسا نہیں جو جوتے تلے کچل دیا جائے۔ ’’پیارے! (شاید) میں نے زیادہ تکالیف اس لئے اٹھائیں کہ میں نے پیار بھی ٹوٹ کر کیا۔ میرے غم و اندوہ کی پیمائش (اسی لئے) میرے پیار کی شدت کے حساب سے ہونی چاہیئے۔ ’’پیارے! میں تم سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔ مجھے تم سے پیار ہے ۔۔۔ اور اگر میں تم سے تھوڑا سا بھی کم پیار کرتی، تو شاید تمھارے ساتھ ہی رہتی …جب کوئی خوبصورت شگوفہ تخلیق کر لے، تو وہ اسے کبھی دلدل میں نہیں پھینکتا۔ انسان اپنے آئیڈیل کا معیار جتنا بلند کرے، وہ اتنا ہی زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ ’’میرے پیارے! میں نے اتنی شدت سے تم سے محبت کی ہے کہ کم ہی مردوں کو ایسا پیار ملا ہو گا۔ میری تم سے صرف یہی التجا ہے کہ (ہماری) محبت میں جس اَلم نے جنم لیا، وہ اسی کے ساتھ اختتام پذیر ہو جائے۔ ’’پیارے ! شب بخیر اور خدا حافظ۔” ۔۔

اور 20 فروری 1929ء کو اپنی 29ویں سالگرہ کی روز مریم جناح وفات پا گئیں۔ ملک کے سب سے مہنگے وکیل اور آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے سب سے اہم قائد کی نازک اندام بیوی نے جس وقت دم توڑا اس وقت جناح ان کے قریب نہیں تھے۔ انہیں اطلاع دی گئی۔ قائداعظم نے بڑے حوصلے اور ہمت سے اپنے دکھ کو چھپا کر انکی تدفین اپنے ہاتھ سے کی۔ قائداعظم اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد 18 سال بمبئی میں رہتے ہوئے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ ہر جمعرات بعض روایات کے مطابق ہر شام اپنی اہلیہ کی قبر پر حاضری دیتے۔

فولادی اعصاب کے مالک قائد اعظم کو زندگی میں کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا گیا سوائے دو مقامات پر ۔۔۔ اور دونو مریم سے ہی جڑے ہیں۔ ایک تو مریم کو دفناتے وقت جونہی ان کو قبر میں اتارنے کے بعد جناح کر قبر پر مٹی ڈالنے کو کہا گیا، تو ضبط کا دامن چھوٹ گیا اور وہ آنسوؤں سے زار و قطار رونے لگے۔ دوسرے جب اگست 1947ء کو پاکستان آنے لگے تو آخری بار وہ اپنی اہلیہ کی قبر پر گئے کافی دیر بیٹھے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔

قائداعظم نے مریم جناح کے بعد کوئی شادی نہیں کی وہ ٹوٹ چکے تھے، مگر ایسے وقت میں انکی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کو سنبھالا۔ اگر مادر ملت، بھائی کا خیال اس طرح نہ رکھتیں تو شاید قائداعظم کیلئے سیاست میں اتنا بڑا کردار ادا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا۔ اس لیے اگر یہ کہیں کہ مادر ملت پاکستانی قوم کی محسنہ تھیں کہ انہوں نے اپنے بھائی کو سہارا دیا اور انہوں (قائداعظم) نے ہمیں پاکستان دیا تو غلط نہ ہو گا

محمد علی جناح کی رتی سے ایک بیٹی دینا جناح تھی ۔ یہ 14 اگست 1919 کی شام تھی جب قائد اعظم محمد علی جناح اپنی اہلیہ رتن بائی کے ساتھ تھیٹر گئے ہوئے تھے کہ ڈرامہ کے دوران رتن بائی نے قائد کو مطلع کیا کہ وہ درد زہ محسوس کررہی ہیں اور انھیں فوراً میٹرنٹی ہوم پہنچایا جائے۔ قائد نے ایسا ہی کیا اور اسی رات 15 اگست 1919 کو ان کے گھر ایک خوب صورت بچی نے جنم لیا جس کا نام دینا رکھا گیا۔دینا جناح ابھی ساڑھے نو برس کی ہوئی تھیں کہ ماں کے سائے سے محروم ہوگئیں۔

رتن بائی اپنی بیٹی کو اڈیار (مدراس) میں تھیوسیوفیکل اسکول میں داخل کروانا چاہتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مکمل معلومات بھی حاصل کرلی تھیں مگر قائداعظم کی مداخلت کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا تھا۔

دینا جناح نے ابتدائی تعلیم بمبئی کے ایک کانوینٹ اسکول میں حاصل کی۔ دینا اگرچہ بیشتر اپنی نانی کے پاس رہتی تھیں اس کے باوجود محمد علی جناح نے دینا کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے ایک گورنس کو ملازم رکھا تھا جس کا نام اسٹیلا تھا۔ وہ بمبئی کی رہنے والی کیتھولک تھی۔ محمد علی جناح کی پیشہ ورانہ اور سیاسی مصروفیات کی بنا پر ان کو دینا کے ساتھ رہنے کے بہت کم مواقع ملتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود دینا اپنے والدین سے شدید محبت کرتی تھیں اور ان کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے والدین کے پاس ہی رہیں۔ وہ ہر سال گرمیوں میں اپنے والدین کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کشمیر جاتی تھیں جبکہ دو مرتبہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ لندن بھی گئیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی بہن فاطمہ جناح کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ دینا کی اسلامی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔ دینا کو قرآن پڑھانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگیں لہذا دینا جناح اپنے پارسی ننھیال کے زیادہ قریب ہوئیں۔ اس دوران میں دینا نے محمد علی جناح کی مرضی کے خلاف ایک پارسی نوجوان نیول واڈیاکے ساتھ شادی کر لی۔ قائد اعظم بہت دکھی ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی بیٹی پر غصے کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے اس کے بعد اپنی اس بیٹی سے قطعہ تعلق کر لیا تھا اوراس سب کے باوجود انہوں نے اپنی وصیت میں اس کے لیے دو لاکھ روپے مقرر کیے تھے۔

دینا واڈیا 15 اگست 1919 کو پیدا ہوئیں اور 2 نومبر 2017 کو آپ کا انتقال ہوا۔آپ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مریم جناح کی بیٹی اور واحد اولاد تھی۔ دینا کی والدہ کا تعلق ممبئی کے دو اعلیٰ خاندانوں پیٹت برونیٹس اور ٹاٹا خاندان سے تھا۔

1938ء میں دینا نے مشہور صنعت کار نیولی واڈیا سے شادی کی، نیولی واڈیا ممتاز واڈیا خاندان سے تھا، البتہ، شادی زیادہ عرصہ نہیں چلی اور 1943ء میں طلاق ہو گئی۔دینا واڈیا 2 نومبر 2017ء کو 98 برس کی عمر میں نیویارک میں انتقال کرگئیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں