648

ہمارے معاشرے کا سلگتا موضوع ۔۔۔۔ جس پر اچھے خاصے لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ خواجہ سرا وہ لوگ ہیں جو واضح جنس نہیں رکھتے۔ یعنی نہ ان کا شمار مردوں میں ہوتا ہے نہ عورتوں میں ہوتا ہے۔ رپوٹ لبنی اشرف سیال

خواجہ سرا: ایک مظلوم طبقہ ۔

ہمارے معاشرے کا سلگتا موضوع ۔۔۔۔ جس پر اچھے خاصے لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ خواجہ سرا وہ لوگ ہیں جو واضح جنس نہیں رکھتے۔ یعنی نہ ان کا شمار مردوں میں ہوتا ہے نہ عورتوں میں ہوتا ہے۔ یہ جس گھر میں پیدا ہو جائے اس کے والدین، عزیز و اقارب اس کو قبول نہیں کرتے تو یہ جینے کے لیے اپنی ایک الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں۔ ان کا ایک گرو ہوتا ہے۔ اپنا پیٹ پالنے کے لیے چوراہوں، گلیوں، پارکوں اور سگنلز پہ کھڑے ہو کے بھیک مانگتے ہیں۔ 50، 100 روہے کی خاطر یہ خود کو جنسی عمل کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔ لوگوں کے لیے اپنے آپ کو قابل توجہ بنانے کے لیے مصنوعی بالوں، سستے میک اپ اور دیگر آرائشی چیزوں کا سہارا لیتے ہیں۔

ان کی حرکات وسکنات کی وجہ سے معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا۔ شرفا ان سے بات کرنے میں کراہت محسوس کرتے ہیں۔ عام لوگ خواجہ سرا کو تفریح کا سامان سمجھتے ہیں۔ بچوں کی پیدائش پہ لوری سنانے قصبوں، دیہاتوں میں آ موجود ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ پہ ناچ گانا کرتے ہیں اس کے عوض پیسے وصول کرتے ہیں۔ اپنی کمائی کا کچھ حصہ اپنے گرو کو دینا ہوتا ہے۔ جو وہاں کے خواجہ سراوں کا سر پرست ہوتا ہے۔ ان کو میراث میں سے حصہ نہیں دیا جاتا۔ ان کے لیے کو ئی جائداد حتیٰ کہ کرائے کا مکان حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ان میں بھی اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ مگر ان کے اندر برائی معاشرے کی دی ہوئی ہے ان کے اس پیدائشی نقص کی وجہ سے۔

وہی انسان جو خود کو مکمل کہتے ہیں وہ ان کو غلط عادات اور رویے پر مجبور کرتے ہیں یہ رفتہ رفتہ عادی ہو جاتے ہیں۔ ان کے اب باقاعدہ نیٹ ورک بنے ہوئے ہیں۔ یہ معاشرے میں نہ چاہتے ہوئے بھی فحاشی اور بیماریاں پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں وہ جانوروں کے حقوق تک کو پیش نظر رکھتا ہے۔ جہاں ایسا اشارہ بھی حرام قرار دیا گیا جس سے کسی انسان کا دل دکھے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ ہم ایک انسانی گروہ کی اذیت کے جانے انجانے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔
اگرچہ چند سال پہلے سپریم کورٹ نے ایک رٹ کے نتیجے میں خواجہ سرائوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے اور با عزت ملازمتیں دینے کا حکم دیا تھا۔ مگر ضرورت ان کے حق میں مزید قانون سازی اور اس کے مئوثر نفاذ کی ہے۔ ساتھ ساتھ معاشرے کی نفسیات اور رویے میں ان کے لیے جگہ پیدا کرنا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے بچے جو پیدائشی واضح جنس نہیں رکھتے ان کا مستقبل خواجہ سرا بننا ہی کیوں؟؟۔۔۔ یہ کیوں نہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور با عزت روزگار حاصل کریں اور اپنی زندگی اعلیٰ اقدار پہ گزار سکیں اپنے آپ کو بحیثیت انسان اوپر اٹھا سکیں۔ آخر انہیں قدرت نے ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے۔ ہمارا ان سے جینے کا حق چھین لینا اور ذلت کی دلدل میں دھکیل دینا انتہائی ظالمانہ اور بے رحم رویہ ہے۔

ایک صحابیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسے لوگوں کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے صاف صاف فرما دیا کہ اس کی جسمانی ساخت سے ان کی زندگی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر نسبتاً کسی میں عورتوں والی خصوصیات زیادہ ہیں تو وہ عورتوں کی طرح زندگی گزاریں گے اور جس میں مردانہ خصوصیات زیادہ ہیں تو وہ مردوں کی طرح زندگی گزاریں گے۔

خلقی اوصاف کے اعتبار سے ان میں بعض کامل مردانہ اوصاف اور بعض زنانہ اوصاف سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ ان کی تخلیق میں ہارمون کے غیر متوازن ہونے کی وجہ سے نقص پیدا ہو جاتا ہے جیسے بعض دوسرے بچے پیدائشی طور پہ معذور ہوتے ہیں۔ ان کے اور ان کے مابین فرق ناقص اعضا کے اختلاف کا ہے۔

حکومت کو چاہیے خواجہ سراوں کے لیے علیحدہ تعلیمی اور تر بیتی ادارے بنائے۔ جو ہر ضلع کی سطح پر ہوں۔ حکومت ان کی سر پرستی کرے۔ جہاں ان کی تعلیم وتر بیت مفت ہو۔ ان کو مختلف پیشہ وارانہ کام سکھائے جائیں۔ ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 6 سے 7 لاکھ ہے۔ اگر ان کی شاندار تعلیمی اور پیشہ وارانہ تربیت کی گئی تو یہ معاشرے پہ بوجھ کی بجائے بہترین افرادی قوت ثابت ہو سکتے ہیں۔ فیشن انڈسٹری، تھیٹر، ڈرامہ، فلم اور دیگر آرٹ کے شعبوں میں ان کی اچھی کھپت ہو سکتی ہے۔ حکومت ان کے میراث میں سے حصے کو بھی یقینی بنائے۔

دوسری طرف معاشرے کی ذمہ داری حکومت سے بھی بڑھ کر ہے۔ ان کو شرم کے مارے کچرے میں کون پھینکتا ہے۔ خواجہ سرائوں کو حقارت، ذلت اور محض گھٹیا تفریح اور ہنسی کا سامان کون سمجھتا ہے۔ یہ بھی دیگر خصوصی بچوں کی طرح ہیں۔ پہلے تو ہمیں اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جو ہم میں تھوڑے مال دار لوگ ہیں وہ اپنے مشاہدے میں موجود کسی ایک خواجہ سرا کے لیے روزگار کا ذریعہ بنا دیں، کوئی چھوٹا موٹا کاروبار، ٹھیلا، کوئی کینٹین وغیرہ۔ ممکن ہو تو ان کی تعلیم و تربیت کا وسیلہ بنائے۔

ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں وہ جانوروں کے حقوق تک کو پیش نظر رکھتا ہے۔ جہاں ایسا اشارہ بھی حرام قرار دیا گیا جس سے کسی انسان کا دل دکھے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ ہم ایک انسانی گروہ کی اذیت کے جانے انجانے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں