351

جنسِ مخالف سے دوستی ہمیشہ ہی مشکل سوال رہا ہے جسے خاطرخواہ سمجھا گیا نہ مانا گیا بلکہ اس دوستی کو روا رکھنے کیلئے روشن خیالی کا غلاف چڑھایا گیا اور اس دوستی سے باز رکھنے والے طبقے کو ہمیشہ قدامت پرست کہہ کے شرمایا جاتا رہا ہے۔ تحریر طلحہ راجپوت

جنس مخالف سے دوستی

انسانوں کے درمیان دوستی نوع انسان کیلئے کیا معنی رکھتی ہے اس کی تفصیل بے جا ہے تاہم ایک گزارش نہایت ضروری ہے کہ دوسروں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنا انسان کی سماجی، معاشی و معاشرتی مجبوری ہے، پھر اپنی فطری، فکری اور جذباتی ضروریات کے پیش نظر بھی ہمیں ایک دوسرے سے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں، دوستی کا تعلق انسان کی روزمرہ زندگی کے مشکل اوقات میں بھی ایکدوسرے کے کام آتا ہے اور نوجوانوں کیلئے سماجی و تعلیمی میدانوں میں بھی سہولتوں کے کئی در وا کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جنسِ مخالف کے حوالے سے یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ مرد اور عورت اب بھی صرف اپنی اپنی دنیا میں جیتے ہیں جب تک کہ ان کی شادی نہ ہو جائے، شادی کے بعد بھی مرد و عورت کے دائرہ کار میں نمایاں فرق موجود رہتا ہے ایک اندرون خانہ مصروف ہے تو دوسرا بیرون خانہ لیکن جدید دور کی تعلیم اور اس کے تقاضے جس طرح سے بدل رہے ہیں یہ دوران تعلیم اور کیرئیر اب مرد و خواتین کو باہم اختلاط کے وافر مواقع فراہم کر رہے ہیں جس میں دوستی کا پروان چڑھنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ کئی حوالوں سے فکرمندی کی بات ضرور ہے۔

پرانے دور میں ان دونوں اصناف کے درمیان رابطہ ایک مشکل ترین کام تھا بلکہ نامحرم اور انجان مرد و عورت کا باہم مل بیٹھنے کا تصور بھی محال تھا اس کے باوجود اس جہان میں ماضی کی عشقیہ داستانوں کی کمی نہیں تو آج کے مخلوط ماحول، انٹرنیٹ کنکشن اور موبائل فون کے دور میں صنف مخالف کی قربت و کشش سے کیسے کیسے معاملات پیدا ہو رہے ہیں اور معاشرے پر ان کے کیا اثرات پڑیں گے ان سب پر نگاہ رکھنے کی شدید ضرورت ہے۔

جنسِ مخالف سے دوستی ہمیشہ ہی مشکل سوال رہا ہے جسے خاطرخواہ سمجھا گیا نہ مانا گیا بلکہ اس دوستی کو روا رکھنے کیلئے روشن خیالی کا غلاف چڑھایا گیا اور اس دوستی سے باز رکھنے والے طبقے کو ہمیشہ قدامت پرست کہہ کے شرمایا جاتا رہا ہے۔

مغرب میں جنسِ مخالف کے ساتھ میل جول کا رجحان انیسویں اور بیسویں صدی کے سنگم پر ہوا جب ان کا سماج صنعتی انقلاب کے دور سے گزر تھا تھا اور ہمارے ہاں یہ سفر بیسویں اور اکیسویں صدی کے سنگم پر شروع ہوا جب پروفیشنل تعلیمی اداروں اور کارپوریٹ سیکٹر میں نوجوانوں کا بغرض تعلیم اور کیرئیر اکٹھ ہونا شروع ہوا۔

مغربی سوسائٹی اس اختلاط کی وجہ سے جن مشکلات سے دو چار ہوئی اس پر کئی بار مقالات لکھے گئے یہاں تک کہ آج سوا سو سال بعد بھی وہ اس اختلاط کے بھیانک نتائج پر یونیورسٹیز اور کالجوں میں ریسرچ کرتے پائے جاتے ہیں، یہ ریسرچ صرف دو نقاط کے گرد گھومتی ہے اول یہ کہ جنس مخالف کی دوستی میں افادیت کیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی قیمت کیا ہے…؟

اس دوستی میں بیشتر فوائد دونوں فریقین کیلئے یکساں ہیں جن میں پروفیشنلی ایکدوسرے کی مدد کرنا، سوشل ایکٹیویٹیز میں، آؤٹنگ اور ڈنر کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ مہیا ہونا، شخصی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے ایک دوسرے کا معاون ہونا، جنس مخالف کو سمجھنے کا موقع ملنا، اس کی سوچ اور روئیے سے آگاہی حاصل ہونا جبکہ اس دوستی کی قیمت میں بعض باتیں کامن ہیں جن میں حسد، لڑائی، رشتے کی غرض و غایت میں کنفیوژن کا موجود رہنا، احساس کمتری یا برتری کا شکار ہونا اور خاص طور پہ کسی اسٹیج پر فریقین میں محبت کا عنصر پیدا ہو جانا جو ہمارے معاشرے میں تو اپنے ساتھ کئی مشکلات لے کے آتا ہے۔

مغرب میں بلاشبہ اس دوستی کے دو زون ہیں ایک وہ جو صرف دوستی چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو رومانوی اور جنسی تعلقات بھی قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس تعلق کو ایک ساتھ زندگی گزارنے کی کمٹمنٹ نہیں بناتے، ہمارے معاشرے میں عورت اگر اس زون میں داخل ہو جاتی ہے تو عموماً شادی کے وعدے پر ورنہ صرف عیاشی کا پہلو ہمارے ہاں مردوں میں تو شائد سو فیصد پایا جاتا ہو لیکن خواتین میں ایک دو فیصد بھی نہیں ہوگا البتہ وہ ٹریپ ضرور ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر ایڈرئین۔ وارڈ ہاورڈ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں ڈاکٹورل ریسرچر تھے ان کی سن دوہزار میں اپنے تھیسز کیلئے کی گئی ریسرچ بتاتی ہے کہ عورت کی فطری نرمی اور لگاؤ پر مبنی طبیعت کو دیکھ کر مرد ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ صنف نازک ان کی کشش میں مبتلا ہو گئی ہیں جبکہ یہ ایک کنفیوژن کے سوا کچھ بھی نہیں، مردوں کا ایسا سوچنا خواتین کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا، یہ مردوں کا اپنا ہی مسئلہ ہے جو ایسا سوچنے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ رومانوی جذبات دو طرفہ ہیں، درحقیقت یہ خواتین کے صحیح محسوسات سے قطعی لاعلم ہوتے ہیں، بعض تو اتنے خوش فہم بھی واقع ہوتے ہیں کہ لڑکی کے پیچھے مڑ کے دیکھ لینے کو محبت ہی سمجھ بیٹھتے ہیں۔

خواتین خاص طور پہ ٹین۔ ایجر لڑکیاں بھی مردوں کی ان خوش فہمیوں سے قطعی لاعلم ہوتی ہیں، خواتین چونکہ پہلی نظر میں محبت یا کسی اور قسم کی محبت کے چکر سے حتی الوسع دور رہنے کی کوشش کرتی ہیں اور اپنی اس فطرت کے باعث وہ یہی سمجھتی ہیں کہ شائد مرد بھی ایسا ہی سوچتا ہے جبکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے الٹ سوچ رہے ہوتے ہیں، نتیجۃً مرد حضرات اپنے نظریئے کو سچ سمجھ کر اسی کے مطابق عمل کرنے لگتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنے خودساختہ نظریئے کی بنیاد پر جنسِ مخالف کی دوستی میں تعلقات کو اوورایسٹیمیٹ کرکے زیادہ مشقت، دقت، خرچہ اور تکالیف اٹھاتا ہے کیونکہ خواتین اس کی ضرورت کے مطابق قطعاً نہیں سوچتیں بلکہ وہ صرف اپنی فطرت کے مطابق سوچتی ہیں اور زیادہ تر اپنی فطرت کے مطابق ہی چلتی ہیں۔

مغرب میں ریسرچ صرف دو نکات کے گرد گھومتی ہے اول یہ کہ جنس مخالف کی دوستی میں افادیت کیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی قیمت کیا ہے؟

خواتین کی دلچسپی صرف اس حد تک ہوتی ہے کہ گروپ میں مردوں کی موجودگی سے انہیں احساس تحفظ رہتا ہے یا سوشل ایکٹیویٹیز میں میل پارٹنرز، آؤٹنگ اور ڈنرز کا بل دینے والے میسر آجاتے ہیں یا پھر مردوں کی سوشل نیٹ ورکنگ اور دیگر ریسورسز سے کوئی فائدہ اٹھانا ان کے مطمع نظر میں شامل ہو سکتا ہے جبکہ مرد اسی چیز کو رومانوی تعلق تک پہنچنے کی سیڑھی سمجھ کے اپنا وقت اور پیسہ ضائع کرتے رہتے ہیں لیکن خواتین رومانوی اور جنسی تقاضے کو اس دوستی کی ایک بڑی قیمت سمجھ کر عموماً پیچھے ہٹ جاتی ہیں جو طرفین کیلئے نفسیاتی دباؤ کا باعث بھی بنتا ہے۔

ونکنسن یونورسٹی کے ایک سوشل سائینٹسٹ نے ریسرچ کیلئے اٹھاسی جوڑوں کا انتخاب کیا اور انہیں اس بات کی قسم دی گئی کہ وہ اس سروے کے بعد آپس میں ان سوالوں کو ڈسکس نہیں کریں گے، اس کے بعد ان سب سے علیحدگی میں اپنے پارٹنر سے متعلق سوالات پوچھے گئے جس میں یہی نظر آیا کہ خواتین اس دوستی کو عموماً روا رکھتی ہیں اور جنسی تعلقات کے بغیر اس دوستی کو قائم رکھنا بھی چاہتی ہیں جبکہ مرد ان کی کشش، اداؤں اور قربت سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور اپنے اخذ کردہ غلط نتائج کی روشنی میں اس دوستی کو پیار سمجھ کر صنف نازک کی طرف مزید جھکتے چلے جاتے ہیں۔

نارویجن یونیورسٹی آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی کے سن دوہزار بارہ کے ایک سروے میں بھی یہی رزلٹ بتایا گیا ہے، یہاں تک کہ جو خواتین کہیں آپ کا ہاتھ پکڑ لیں، آپ کے کسی لطیفے پر کھلکھلا کر ہنس پڑیں یا کسی بات پر آپ کے ہاتھ پر ہاتھ ماریں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کے اس عمل میں کوئی رومانوی یا جنسی تعلق قائم کرنے کی دعوت موجود ہے، ہمارے ہاں جو خواتین اپنے میل فرینڈز کو “یار” کہہ کے مخاطب کرتی ہیں یہ بھی اسی کیٹگری میں آتی ہیں لیکن یہ سارے جیسچرز مردوں کو کنفیوژ کرنے یا ان کی نیندیں چرانے کیلئے بہرحال کافی ہیں۔

ریمونڈ والٹر کالج کا ریسرچر ڈان اومائیرا کہتا ہے، جنسِ مخالف کے درمیان سچی دوستی کا تصور تو موجود ہے جس میں ایک دوسرے کیلئے پیار محبت، عزت و احترام اور ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے لیکن کسی وقت تنہائی میں قریب بیٹھنا یا عام روٹین میں فریقین کا گلے ملنا بھی کسی ایک کے دل میں جنسی کشش اور جنسی تعلق کی خواہش پیدا کر سکتا ہے، یہ خواہش اس دوستی کے بیچوں بیچ کہیں نہ کہیں گھومتی ضرور رہتی ہے جو کسی نازک وقت میں ایک تقاضے کے طور پہ سامنے آجاتی ہے، آپ مانیں یا نہ مانیں اسے اگنور کرنا بھی فریقین کیلئے خاصا مشکل کام بن جاتا ہے، ریسرچرز کے مطابق 62% لوگ اس تعلق کو قائم کر جاتے ہیں پھر ان باسٹھ فیصد لوگوں کا آدھا حصہ اس تعلق سے باہر بھی آجاتا ہے جبکہ باقی پچاس فیصد اس تعلق سے باہر نہیں نکل سکتے۔

دوستی کو اس کے سادہ دائرے میں قائم رکھنے پھر جنسی تعلق سے بچنے کے بعد تیسرا بڑا چیلنج فریقین میں مساوات کا قائم رکھنا ہے، معاشرے میں مساوات کا نظریہ موجود ہونے کے باوجود مرد کو بعض معاملات میں گیرائی، گہرائی، پزیرائی اور بالا دستی میسر ہے جس کی وجہ سے خواتین نہ صرف خطرے میں رہتی ہیں بلکہ لاشعوری طور پر کسی وقت مرد کے ہاتھوں میں کھیلی بھی جا سکتی ہیں، اس رشتے کو چوتھا بڑا چیلنج معاشرے کی تنگ نظری ہے، اس تعلق کو ہزار کوشش کے باوجود بھی شک کی نگاہ سے بچایا نہیں جا سکتا یہاں تک کہ آپ کے قریبی لوگ یہ بات کھل کر بھی پوچھ سکتے ہیں کہ فلاں لڑکی یا فلاں لڑکے کیساتھ آپ واقعی محض دوستی تک محدود ہیں یا بات کچھ آگے نکل چکی ہے…؟

جنسِ مخالف سے دوستی کے ساتھ کچھ اور حقیقتیں بھی جڑی ہوئی ہیں مثال کے طور پر یہ ایک عارضی دوستی ہے جو زیادہ عرصہ تک چل نہیں سکتی اس لئے کہ کسی ایک فریق کی شادی کے بعد لائف پارٹنر اپنی بیوی یا شوہر کا دوسری جنس سے گھل مل جانا پسند نہیں کرتا یہاں سے جنس مخالف کو یہ دوستی ترک کرنا پڑتی ہے، دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس دوستی سے زیادہ فائدہ مرد حضرات اٹھاتے ہیں، مزید یہ کہ اپنے ہم جنسوں سے دوستی ایک ہی جہت میں چلتی ہے جبکہ جنس مخالف کی دوستی میں رنگینی اور تنوع زیادہ ہوتا ہے جو طرفین کیلئے زیادہ تفریح کا باعث ہو سکتا ہے۔

مغربی معاشروں میں جنس مخالف سے دوستی کو درست سمجھنے والے لوگ 83% ہیں، 11% اس کے حق میں نہیں اور چھ فیصد کا ووٹ غیریقینی کے حق میں ہے۔

اس دوستی میں جنسی اور رومانوی تعلق ہو سکتا ہے یا نہیں اس سوال کے جواب میں 62 فیصد کا جواب ہاں میں ہے، 36 فیصد کا جواب نہ میں ہے اور 02 فیصد کا جواب نیوٹرل ہے۔

اس رشتے میں جنسی تعلق کا محرک کون بنتا ہے، اس سوال کے جواب میں 64 فیصد نے مرد کو ذمہ دار قرار دیا، 25 فیصد نے عورت کو اور 11 فیصد کا جواب نیوٹرل ہے۔

جنسِ مخالف کے ساتھ دوستی میں اس کے ساتھ سچی محبت ہو سکتی ہے، 94 فیصد کا جواب ہاں میں ہے، 04 فیصد کا نہ میں اور 02 فیصد کا جواب نیوٹرل ہے۔

فریق ثانی کو جب پتا چلے کہ فریق اول اس سے محبت کرنے لگا ہے تو کیا فریق ثانی اس دوستی سے کنارہ کش ہو جائے گا، اس سوال کا جواب 71 فیصد نے ہاں میں دیا ہے، 09 فیصد نے نہ میں اور 20 فیصد نیوٹرل ہیں۔

اس رشتے میں جنسی تعلق سے دور رہنے میں کون زیادہ باہمت ہے، خواتین 67 فیصد اور مرد صرف 13 فیصد۔

اس ریسرچ میں ایک بات بہت نمایاں طور پر سامنے آئی ہے کہ ہر ریسرچر نے جنسی تعلقات کا متقاضی صرف مرد کو ہی ٹھہرایا ہے جو کسی حد تک متعصبانہ فعل محسوس ہوتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں، میں اس بات سے کسی حد تک متفق ہوں کیونکہ یہ ہر جاندار کی جبلت ہے کہ جنسی تحریک ہمیشہ نر کی طرف سے شروع ہوتی ہے اور جبلی طور پر وہی اس فعل کا ڈرائیور ہے پھر بھی صرف اس کو سیکس ڈرائیو کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا بغرض انصاف انہیں یہ بات باور کرا دینی چاہئے تھی کہ اس دوستی میں جسمانی تعلقات قائم کرنے میں صنف نازک بھی برابر کی شریک ہوتی ہے خواہ وہ لاشعوری طور پر ایسا قدم اٹھالے، ٹریپ ہو جائے یا کسی وعدے پر اس کھیل کا حصہ بن جائے۔

اب جنسِ مخالف کی دوستی سے دوران تعلیم اور کیرئیر نئی نسل کو لازمی واسطہ پڑتا ہے جسے کسی حد تک قابل قبول سمجھا جانے لگا ہے لیکن اس کی پبلک پریزینٹیشن ابھی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

بعض ریسرچر تعلیمی اور کیرئیر کے میدانوں میں جنس مخالف کی دوستی کو ایک دوسرے کیلئے مفید اور معاون تو سمجھتے ہیں لیکن اس رشتے کو ایک قابل احترام حد تک برقرار رکھنے کے بارے میں وہ بھی شاکی نظر آتے ہیں۔

ریسرچر ڈان اومائرا کے مطابق جنس مخالف سے دوستی بنیادی طور پر غیر رومانوی، غیر خاندانی اور قطعی عام سی دوستی کا نام ہے تاہم فریقین کے درمیان رومانوی اور جنسی تعلق کا پیدا ہو جانا خارج از امکان ہے نہ کوئی حیرت انگیز بات ہے بلکہ جنسی تعلق اس دوستی میں تنوع، دلچسپی اور انجوائیمنٹ بڑھانے کیلئے عام طور پر اختیار کر لیا جاتا ہے لیکن یہ دوستی پبلک پریزینٹیشن کے طور پر ایک سوالیہ نشان ضرور بنی رہتی ہے کہ اسے کیا معتبر نام دیا جائے جس سے فریقین کی سماجی عزت و عافیت مجروح نہ ہو۔

جدید دور میں جنسِ مخالف کی دوستی سے دوران تعلیم اور کیرئیر نئی نسل کو لازمی واسطہ پڑتا ہے جسے کسی حد تک قابل قبول بھی سمجھاجانے لگا ہے لیکن اس کی پبلک پریزینٹیشن ابھی بھی ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔

جنسِ مخالف کے ساتھ اچھی دوستی صرف اس بات پر منحصر ہے کہ وہ دونوں ایکدوسرے سے اپنی حدود و قیود کس طرح بیان کرتے ہیں، کیونکہ ہر ایک کا مطمع نظر مختلف ہو سکتا ہے، کچھ لوگ صرف اپنی صلاحیتیں اور ریسورسز شئیر کرنا چاہتے ہیں، کچھ لوگ رومانویت پسند اور کچھ جنسی تعلق چاہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ زندگی بھر کا ساتھ چاہنے والے بھی ہوتے ہیں، لڑکے لڑکی کی کالج و یونیورسٹی میں دوستی یا مرد و عورت کی دوران کیرئیر صحتمند دوستی درمیان میں ایک فاصلے اور اخلاقی بیرئیر کی متقاضی ہیں، یہ بیرئیر ہی اس دوستی کو کمفرٹ زون میں رکھ سکتے ہیں جو صرف باہمی اعتماد اور احترام پر مشتمل ہوں۔

یہ بہتر ہے کہ فریق ثانی کی طرف جنسی دلچسپی کو محض ایک وقتی جذبہ سمجھ کر نظر انداز کیا جائے بلکل اسی طرح جیسے انسان کے دل میں کوئی خیالِ بد آتا ہے لیکن اسے سوچ سمجھ کر ہی زبان پر لایا جاتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ جب جنسی دلچسپی پیدا ہو تو انسان اس کیلئے راہ ہموار کرنے چل دے۔

انسان اپنی جبلت کا اسیر ہے مگر تعلیم و تربیت اسے بلا شک و شبہ معاشرتی حدود قیود سے آگاہ کر دیتی ہے، ہم جس معاشرے کی طرف بڑھ رہے ہیں اس آنے والے وقت میں نوجوانوں کا تعلیمی اداروں میں اختلاط اور کارپوریٹ ورلڈ میں مرد و عورت کا آمنا سامنا اور باہم مل کر کام کرنا ایک ضرورت بنتا چلا جائے گا، اس ماحول میں جنس مخالف سے دوستی کی حدود واضع طور پر خود آپ کو ہی متعین کرنی ہیں۔

یہ بہتر ہے کہ فریق ثانی کی طرف جنسی دلچسپی کو محض ایک وقتی جذبہ سمجھ کر نظر انداز کیا جائے بلکل اسی طرح جیسے انسان کے دل میں کوئی خیالِ بد آتا ہے لیکن اسے سوچ سمجھ کر ہی زبان پر لایا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ جنسی دلچسپی پیدا ہو تو انسان اس کیلئے راہ ہموار کرنے چل دے۔

کسی کی محبت میں گرفتار ہونے کا جذبہ انسانی جبلت کے علاوہ کچھ اثرات کا بھی پابند ہے جو اسے مہمیز دیتے ہیں، ان میں رومانٹک ناولز، معاشرتی مثالیں، میڈیا اور سوشل ٹرینڈز بڑا دخل ادا کرتے ہیں۔

کسی کے ساتھ اپنا ورک لوڈ، ماضی حال اور مستقل ڈسکس کرنا آپ کو بوائے فرینڈ یا گر ل فرینڈ نہیں بناتا بلکہ عشق ایک الگ طرح کی فیلنگ ہے جس میں انسان کچھ مخصوص حدوں کو بھی کراس کرنا چاہتا ہے اگر اس جبلت پر قابو پا بھی لیا جائے تو بھی اوپر بیان کئے گئے معاشرتی بیرئیرز آپ کی راہ میں روڑے ضرور اٹکائیں گے جو کسی حد تک حد فاصل قائم کرنے کیلئے ضروری بھی ہیں۔

مرد و عورت کی دوستی آج کے دور میں ناممکن نہیں لہذا سوال یہ نہیں کہ جنس مخالف باہم دوست ہو سکتے ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ آیا یہ صرف اچھے دوست ہو سکتے ہیں یا نہیں تو متذکرہ بالا تضادات کی موجودگی میں اس کا جواب ہے، نہیں۔ بگ۔نو۔ لیکن فی زمانہ مخلوط تعلیم، مخلوط کیرئیر، موبائل فون اور انٹرنیٹ کمیونیکشن کی موجودگی میں ہمارے معاشرے میں بھی جنسِ مخالف سے دوستی کا رجحان اور زیر زمین ابارشن کا ریشو کافی ہائی ہو چکا ہے لیکن اس پر نہ کسی کی توجہ ہے اور نہ ہی کوئی پیش بندی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں