359

شیخو سے شیخوپورہ کیسے ھوا رپوٹ میٍڈم دعا

” اِکو اَلِف ”
چھوٹے سے اس گاؤں میں سویرے ہی سویرے طوفان کھڑا ہو گیا-
طوفان کا سبب ایک سکھ گھڑ سوار تھا- وہ بدبخت سورج نکلتے ہی گاؤں میں داخل ہوا اور بڑی تمکنت سے چلتا ہوا چوک تک آ گیا-
سب سے پہلے اسے ایک لوہار نے دیکھا جو سویرے سویرے اپنی آتشی بھٹّی سلگا رہا تھا- وہ تیر کی طرح اس کی طرف لپکا-
” اوئے مورکھا …. اوئے تیری — اُتر گھوڑی سے نیچے —- !!! ”
سکھ پہلے تو اس اچانک افتاد پر گھبرا گیا ، پھر ہمت کر کے بولا :
” کی ہویا ؟ دماگ ٹھیک آ تیرا؟؟ گالی کیوں دِتّی — ؟؟
لوہار نے اسے پنچ ست مزید گالیاں دے کر سمجھایا کہ گاؤں سے گزرتے ہوئے سب کو گھوڑے سے نیچے اترنا پڑتا ہے- یہ کوئ سکھا شاہی نہیں — !!!
اس دور میں کچّے گھروندے اور کچی ہی دیواریں تھیں- سوار پردے کے احترام میں گاؤں سے پیدل گزرتے اور گاؤں کی حدود سے باہر جا کر سوار ہوتے تھے-
قصور سے ملحقہ انیسویں صدّی کے اس چھوٹے سے گاؤں ” پانڈو کے” میں ہندو اور مسلمان آباد تھے-
شور سن کر لوگ جمع ہو گئے- جھگڑا بڑھنے لگا- لوگ سکھ کو زبردستی گھوڑے سے نیچے اتارنا چاھتے تھے مگر سردار بھی ضد کا پکّا تھا ، گھوڑے پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا …
” جے اپڑیں پیو دے پُتّر او تے مینوں لاہ کے وکھاؤ … !!! ”
بات گالم گلوچ ، لعن طعن سے ہوتی ہوئ لت مُکّی تک آ گئ- ہر شخص حسب استطاعت اس مقدس جنگ میں حصّہ لینے لگا- کچھ لوگ برچھیاں اور بھالے لینے گھروں کی طرف بھاگے-
یہ معرکہ جاری تھا کہ ادھر سے عبداللہ شاہ کا گزر ہوا- عبداللہ گاؤں کے امام مسجد کا جوان بیٹا تھا- وہ ایک نرم خو انسان تھا- گاؤں کے لوگ اس کا بہت احترام کرتے تھے-
” چھوڑ دو اس کو — ” عبداللہ نے آتے ہی آوازہ لگایا-
اس وقت تک پنڈ والے آدھا معرکہ فتح کر چکے تھے- سکھ کو گھوڑے سے گرایا جا چکا تھا- اس کے کپڑے پھٹ چکے تھے اور ہونٹوں سے خون بہہ رہا تھا- دو جوانوں نے ابھی تک اس کا گریبان پکڑ رکھا تھا-
لوگ عبداللہ کو دیکھ کر راستہ دینے لگے-
” ہم.اس کافر کو نئیں چھوڑیں گے- اس نے گاؤں کی روایت کی توہین کی ہے- ہمارے مذھب کو برا کہا ہے- یہ واجب القتل ہے ”
عبداللہ آ گے بڑھا تو لوگوں نے چاروناچار سکھ کا گریبان چھوڑ دیا- اب وہ ہونقوں کی طرح عبداللہ کو دیکھ رہے تھے-
” مسلمان ہو کر ایک اکیلے مسافر سے جھگڑتے ہو — یہی سکھاتا ہے مذھب ؟
عبداللہ سر سے پگڑی اتار کر سکھ کے زخم صاف کئے اور اسے ساتھ چلنے کو کہا-
” یہ گاؤں کی عزت کا دشمن ہے- اس کا ساتھ مت دو عبداللہ ” پانڈو کے بھائ سدھارتھ نے کہا-
عبداللہ نے لوگوں کی پرواہ نہ کی اور سکھ کو گاؤں سے باہر چھوڑ آیا- مگر جب وہ واپس آیا تو پورا پنڈ اس کا دشمن بن چُکا تھا-
لوگ مولوی کے بیٹے کی اس حرکت پر مشتعل تھے- اس کے گھر پر پتھر برسائے گئے- چوھدری پانڈو نے بھی ہجوم کی حوصلہ افزائ کی- صرف ایک شخص نے عبداللہ کا ساتھ دیا- چوھدری کا داماد شیخو- وہ عبداللہ کا عقیدت مند تھا-
عبداللہ اس واقعے سے سخت رنجیدہ ہوا- اپنا مال بستر سمیٹا اور گاؤں چھوڑ کر دوسرے گاؤں ” دفتوہ” چلا گیا- شیخو بھی اس کے ساتھ تھا-
یہی عبداللہ بعد میں پڑھ لکھ کر عالم دین بنا ، مرشد سے بیعت ہوا ، عشق کی کٹھن پگڈنڈیوں پر ” تھیّا تھیّا ” کر کے ناچا اور ناچتا ناچتا آخر بابا بلھے شاہ بن گیا-
اس کے اینٹی اسٹیٹس کو نظریات کی وجہ سے مذھبی لوگ ہمیشہ اس سے نالاں رہے- قصور کی مساجد سے اس کے خلاف کفر کے فتوے بھی جاری ہوئے مگر وہ علم کے نام پر پھیلائ جانے والی جہالت کا پردہ چاک کر کے ہی رہا-
پڑھ پڑھ شیخ مشائخ کہاویں
اُلٹے مَسئلے گھروں بناویں
بے عِلماں نوں لُٹ لُٹ کھاویں
جھوٹے سچے کریں اقرار
علموں بس کریں او یار
اکو الف ترے درکار
پانڈوؤں سے مار کھانے والا سکھ ایک فوجی تھا اور اس کی پلاٹون قصور سے قریب ہی کہیں خیمہ زن تھی-
سکھ دستے نے ” پانڈو کے” پر چڑھائ کی اور گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور وہ دوبارہ کبھی آباد نہ ہو سکا- جبکہ دفتوہ گاؤں بلھے شاہ کے مرید “شیخو” کے نام سے شیخوپورہ کہلایا اور آج بھی آباد ہے-
(ظفر جی)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں