336

۔۔جسٹس کھڑک سنگھ آف پٹیالہ کا تاریخی انصاف : بیور چیف اصف علی

۔۔۔جسٹس کھڑک سنگھ آف پٹیالہ

جسٹس کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں اور ایک لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے۔ جاگیرداری کی یکسانیت سے اک دن اکتا کے بھانجے سے کہا، تیرے شہر میں سیشن جج کی کرسی خالی ہے۔ اس دور میں سیشن جج کی کرسی کا آرڈر وائسرائے جاری کرتے تھے۔ تو لاٹ صاحب کے نام چٹھی لکھ دے اور میں سیشن ججی کا پروانہ لے آتا ہوں۔ مہاراجہ سے چٹھی لکھوا کے مُہر لگوا کر ماموں لاٹ صاحب کے سامنے حاضر ہو گئے۔
وائس رائے نے پوچھا، نام؟ بولے، کھڑک سنگھ
تعلیم؟ بولے کیوں سرکار؟ میں کوئی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لینے آیا ہوں۔
وائس رائے ہنسے، بولے سردار جی،قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے۔ آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے، اچھوں کو چھوڑنا ہے، بُروں کو سزا دینی ہے۔
کھڑک سنگھ مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے، سرکار اتنی سی بات کے لئے گدھا بھر وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام میں برسوں سے پنچائت میں کرتا آیا ہوں اور ایک نظر میں اچھے بُرے کی تمیز کر لیتا ہوں۔
وائس رائے نے یہ سوچ کر کہ اب کون مہاراجہ اور مہاراجہ کے ماموں سے الجھے، جس نے سفارش کی ہے وہی اسے بُھگتے۔ درخواست لی اور حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن کر پٹیالہ تشریف لے آئے۔
خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آ گیا۔ ایک طرف چار قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے، دوسری طرف ایک روتی دھوتی عورت سر کا دوپٹہ گلے میں لٹکائے کھڑی آنسو پونچھ رہی تھی۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ اتنے میں پولیس آفیسر آگے بڑھا اور جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا، مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے مل کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوند کا خون کیا ہے۔
کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر کی بات بھی پوری نہیں سنی اور عورت سے پوچھنے لگے کیسے مارا تھا؟
عورت بولی، سرکار جو دائیں طرف کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں برچھا تھا، درمیاں والا کسی لے کر آیا تھا اور باقی دونوں کے ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں۔ یہ چاروں کماد کے اولے سے اچانک نکلے اور مارا ماری شروع کر دی۔ ان ظالموں نے میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ دے کر غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی، تم نے بندہ مار دیا؟
نہ جی نہ میرے ہاتھ میں تو بیلچہ تھا کسی نہیں، ایک ملزم بولا۔ دوسرا ملزم بولا جناب میرے پاس برچھا نہیں تھا ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی تھی پتے جھاڑنے والی۔
جسٹس کھڑک سنگھ بولے چلو، جو کچھ بھی تمھارے ہاتھ میں تھا وہ تو مر گیا نا۔
پر جناب ہمارا مقصد تو نہ اسے مارنا تھا، نہ زخمی کرنا تھا، تیسرا ملزم بولا۔
تمھاری ایسی کی تیسی، مقصد بھی تھا کوئی تمھارا؟ کرتا ہوں تم سب کا بندوبست، جسٹس کھڑک سنگھ بولے۔ کاغذوں کے پلندے کو پکڑ کر اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم سے عدالت کی ایک کرسی سے کالے کوٹ والا آدمی اٹھ کر تیزی سے سامنے آیا، اور بولا، مائی لارڈ آپ پوری تفصیل تو سُنیں۔ میرے یہ مؤکل تو صرف اسے سمجھانے کے لئے اس کی زمین پہ گئے تھے۔ ویسے وہ زمین بھی ابھی مرنے والے کے نام منتقل نہیں اس کے مرے باپ سے۔ ان ہاتھ میں تو صرف ڈنڈے تھے، ڈنڈے بھی کہاں وہ تو کماد سے توڑے ہوئے گنے تھے۔ پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک منٹ جسٹس کھڑک سنگھ نے کالے کوٹ والے کو روکا اور پولیس افسر کو بُلا کر پوچھا یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟ سرکار یہ وکیل ہے، ملزمان کا وکیل صفائی، پولیس افسر نے بتایا۔
یعنی یہ بھی انہی کا بندہ ہوا نا جو ان کی طرف سے بات کرتا ہے، جسٹس کھڑک سنگھ نے وکیل سے کہا ادھر کھڑے ہو جاؤ قاتلوں کے ساتھ۔ اتنی بات کی اور کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیئے۔ جسٹس کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں ان کا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔
پٹیالے میں تھرتھلی مچ گئی، اوئے بچو، کھڑک سنگھ آ گیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے۔ کہتے ہیں جب تک جسٹس کھڑک سنگھ سیشن جج رہے، پٹیالہ ریاست میں قتل نہیں ہوا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں